بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جو شخص قرآن خوانی میں شریک نہ ہو اس کے لیے کھانا کھانا کیسا ہے؟


سوال

 جس مدرسے میں میں پڑھاتا ہوں وہاں قرآن خوانی ہوتی ہے تومدرسے والے قرآن خوانی کرانے کےپیسے بھی لیتے ہیں،  اور قرآن خوانی کبھی عقیقہ کی ہوتی ہے اور کبھی شادی کے لیے اور کبھی ایصال ثواب کے لیے،  لیکن میں قرآن خوانی میں نہیں جاتا ہوں ۔ کبھی جو عقیقہ کے لیے قرآنی خوانی ہوتی ہے یا شادی کے لیے یا پھر ایصال ثواب یا پھر خیروبرکت کے لیے تو اس کا کھانا مدرسے کے اساتذہ کے لیے بھیج دیتے ہیں جو اساتذہ قرآن خوانی میں نہیں گئےتھے، تو کیا ہر صورت میں اس کا کھانا جائزہے یا پھر کسی صورت میں ناجائز بھی ہے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں خیروبرکت ،یاعقیقہ وغیرہ کےلیے کی گئی قرآن خوانی میں تیار کیا گیا کھانا سب کھا سکتے ہیں شریک ہونے والے بھی اور جو شریک نہ ہو سب کے لیے کھانا جائز ہے، اور اسی طرح اگر کوئی شخص ایصال ثواب کے لیے کی گئی قرآن خوانی میں شریک نہ ہو اور اس کے لیے کھانا بھیج دیا جائے تو اس کےلیے وہ کھانا کھانا جائز ہے۔ البتہ ایصالِ ثواب  کے لیے  اجتماع منعقد  کرکے ایک مخصوص عبادت کرنااور اس کے بعد کھانے کا انتظام کرنا سنت سے ثابت نہیں؛  لہذا اس رواج کو ترک کرنا چاہیے اور اہلِ  میت کو چاہیے کہ وہ انفرادی طور پر میت کو  ایصالِ ثواب کریں، اور اگر یہ کھانا قرآن خوانی کے عوض کے طور پر ہو، یعنی کھانے کی کوئی چیز نہ ہو تو لوگ قرآن خوانی میں شریک نہ ہوں، اور کھانا وغیرہ ہو تو شریک ہوں  تو  یہ ثواب کے لیے پڑھے گئے قرآنِ کریم پر اجرت لینا ہے، جو شرعًا ناجائز ہے۔ اور عمومًا اس طرح کے مواقع پر قرآنِ پاک کی درست خوانی کا لحاظ بھی نہیں رکھا جاتا، اس لیے بھی اس رسم سے اجتناب کرنا چاہیے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن جرير بن عبد الله البجلي قال: كنا نرى الإجتماع إلى أهل الميت و صنعة الطعام من النياحة".

(سنن ابن ماجہ، باب ما جاء في النهي عن الاجتماع إلى أهل الميت و صنعة الطعام، ج: ١، ص: ٥١٤)

 فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح: ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاءهم ما يشغلهم»، حسنه الترمذي وصححه الحاكم، ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل، لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ. مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت. 

وقال أيضاً: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة. وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع، ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل: أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الاستحسان: وإن اتخذ طعاماً للفقراء كان حسناً اهـ وأطال في ذلك في المعراج. وقال: وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها؛ لأنهم لايريدون بها وجه الله تعالى. اهـ. وبحث هنا في شرح المنية بمعارضة حديث جرير المار بحديث آخر فيه: «أنه عليه الصلاة والسلام دعته امرأة رجل ميت لما رجع من دفنه فجاء وجيء بالطعام» . أقول: وفيه نظر، فإنه واقعة حال لا عموم لها مع احتمال سبب خاص، بخلاف ما في حديث جرير، على أنه بحث في المنقول في مذهبنا ومذهب غيرنا كالشافعية والحنابلة استدلالاً بحديث جرير المذكور على الكراهة، ولا سيما إذا كان في الورثة صغار أو غائب، مع قطع النظر عما يحصل عند ذلك غالباً من المنكرات الكثيرة كإيقاد الشموع والقناديل التي توجد في الأفراح، وكدق الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرة على الذكر وقراءة القرآن، وغير ذلك مما هو مشاهد في هذه الأزمان، وما كان كذلك فلا شك في حرمته وبطلان الوصية به، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم". 

(کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة،ج:۲ ؍ ۲۴۰ ، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101341

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں