بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قریہ کبیرہ اور ضروریات زندگی کا مصداق


سوال

عصرِ حاضر میں قریہ کبیرہ اور ضروریاتِ یومیہ کا مصداق کیا ہے ؟

جواب

 فقہاء کے یہاں قریہ کبیرہ سے مراد یہ ہے کہ وہ گاؤں اتنا بڑا ہو جس کی مجموعی آبادی کم از کم  ڈھائی تین ہزار  نفوس پر مشتمل ہو، اس گاؤں  میں روز مرہ  کی تمام اشیاء مثلاً کھانے پینے کی اشیاء، طبی سہولیات، قانونی تقاضے، اور تعلیمی سہولیات وغیرہ  با آسانی مل جاتی ہوں، اور جس گاؤں میں یہ شرائط نہ پائی جائیں  (یعنی گاؤں کی آبادی بھی کم ہے، اور روزِ مرّہ کی ضروریات پوری کرنے کے  لیے کسی اور شہر میں جانا پڑے)تو یہ جگہ قریہ کبیرہ کی تعریف سے خارج  ہے،اس جگہ جمعہ وعیدین کی نماز قائم کرنا جائز نہیں۔

البناية شرح الهداية  میں ہے:

"(والمصر الجامع كل موضع له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود) ش: هذا تفسير المصر الجامع، وقد اختلفوا فيه، فعن أبي حنيفة: هو ما يجتمع فيه مرافق أهله دنيا ودينا.وعن أبي يوسف: كل موضع فيه أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر تجب على أهله الجمعة، وهكذا روى الحسن عن أبي حنيفة في كتاب صلاته وفيه أيضا، قال سفيان الثوري: المصر الجامع: ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة كبخارى وسمرقند.وقال الكرخي: المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود، ونفذت فيه الأحكام، وهو اختيار الزمخشري، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما سمعت إذا اجتمعوا في أكبر مساجدهم فلم يسعهم فهو مصر جامع، وعن أبي حنيفة: هو بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق، ويرجع الناس إليه فيما وقعت لهم من الحوادث، وهو اختيار صاحب "التحفة".وقال أبو يوسف في "نوادر ابن شجاع": إذا كان في القرية عشرة آلاف فهو مصر، وعن بعض أصحابنا: المصر ما يعيش فيه كل صانع بصناعته ولا يحتاج إلى التحول إلى صنعة أخرى.

وفي "المستصفى": أحسن ما قيل فيه إذا وجدت فيه حوائج الدين وهو القاضي والمفتي والسلطان فهو مصر جامع، وعن أبي حنيفة: المصر كل بلدة فيها سكك وأسواق ووال ينصف المظلوم من ظالمه وعالم يرجع إليه في الحوادث وهو الأصح."

(كتاب الصلاة، باب صلوة الجمعة، شروط صحة الجمعة، صلوة فى القرى، ج: ۳، صفحه: ۴۵، ط: دارالكتب العلمية) 

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144502102277

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں