بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی واجب ہونے کے باوجود نہ کی / شوہر نے بیوی کے مال کی زکاۃ ادا کردی / لیکوریا کا حکم


سوال

1۔میری 2015میں شادی ہوئی تھی اور میں زکاۃ اور قربانی کے لیے صاحبِ نصاب ہو گئی تھی، مگر مجھے مسئلہ  کا علم نہیں تھا،اس لیے 2سال تک قربانی نہیں کی،اب ان 2 سالوں کی قربانی کے لیے کیا کروں؟ کتنی رقم صدقہ کروں؟کیا رقم تھوڑی تھوڑی کر کے دی جا سکتی ہے؟

2۔میری زکاۃ ان سالوں کی میرے شوہر اپنی زکاۃ کے ساتھ ادا کرتے رہے ہیں، مگر میں یہی سمجھتی رہی کہ مجھ پر فرض نہیں ہے تو یہ ادائیگی صدقےکی طرح باعثِ ثواب ہو گی؟ 

3۔میں لیکوریا کی وجہ سے شرعی معذور تھی کہ میرےحیض شروع ہو گیا، اب پاکی کے بعد کا کیا حکم ہوگا؟ 

جواب

1۔ اگرقربانی کے ایام گزرجائیں اورصاحبِ نصاب شخص نے قربانی ہی نہ کی، تواب قربانی کی قضاء تونہیں ہوتی ،البتہ اس صورت میں ایک متوسط بکرا یا بکری کی قیمت یا قربانی کے ایک حصے کے برابررقم صدقہ کردينا بھی  کافی ہے،یہ رقم تھوڑی تھوڑی کرکے بھی دی جاسکتی ہے، بہتر یہ ہی ہے کہ جتنا جلدی ہوسکے اس فریضہ کو ادا کرلیں۔

2۔اگر سائلہ کے شوہر نے سائلہ کی  گزشتہ سالوں کی زکاۃ سائلہ کی اجازت سے یا سائلہ کو بتا کر ادا کی تھی ،تو اس صورت میں سائلہ کی گزشتہ سالوں کی زکاۃ ادا ہوگئی ہے ،لیکن اگر سائلہ کو بالکل علم ہی نہیں تھا کہ شوہر اس کی طرف سے زکاۃ ادا کر رہا ہے، تو اس صورت میں سائلہ کے ذمہ گزشتہ سالوں کی  زکاۃ  باقی ہے اور شوہر نے جو رقم وغیرہ زکاۃ کی مد میں دی ہے وہ نفلی صدقہ ہو کر  باعث ثواب ہوگا ۔

3۔واضح رہے کہ لیکوریا کی رطوبت  حیض و نفاس کی طرح نہیں ہے کہ اس کے آنے سے نماز معاف ہوجائے یا روزہ نہیں رکھاجائے اور بعد میں قضا کی جائے ،لیکوریا کی رطوبت ناپاک ہے، اس کے  نکلنے سے  وضو ٹوٹ جاتا ہے،غسل واجب نہیں ہوتا ،نماز  وغیرہ  پڑھنے  کے لیے صرف وضو کرنا  اور جسم یا کپڑوں پر رطوبت لگی ہو تو اسے پاک کرنا ضروری ہے ۔

لہذا  ایا م حیض کے علاوہ  باقی ایام میں نماز پڑھنا ضروری ہے ،اگر لیکوریا کی رطوبت آرہی ہے تو وضو کرلیں اور  جس جگہ  پر رطوبت لگ جائے اسے پاک کرلیا جائے ،البتہ کسی کو اگر یہ بیماری  اتنی زیادہ ہو کہ کسی نماز کے مکمل وقت میں اسے اتنا وقفہ بھی نہ ملے جس میں وہ وضو کرکے پاکی کی حالت میں  اس وقت کی فرض نماز ادا کرسکے تو وہ معذور کے حکم میں ہوگی، اور معذور کا حکم یہ ہے کہ ہر نماز کا وقت  داخل ہونے  کے بعد ایک مرتبہ وضو کرلے اور پھر اس میں جتنی چاہے نماز پڑھے، اگر وضو کے بعد  لیکوریا  کی رطوبت (یعنی جس بیماری کی وجہ سے وہ معذور کے حکم میں ہے) کے  علاوہ کوئی اور وضو توڑنے والی چیز  پیش آئے تو دوبارہ وضو کرے، ورنہ دوبارہ  وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی اور نماز کا وقت ختم ہوتے ہی اس کا وضو ختم ہوجائے گا، اگلی نماز کے وقت کے لیے دوسرا وضو کرنا ہوگا۔  اور  اگر کسی بھی نماز کا مکمل وقت اس عذر (لیکوریا) کے بغیر گزر جائے تو اب یہ خاتون شرعی معذور نہیں رہے گی۔ 

فتاوی شامی میں ہے :

"(ولو) (تركت التضحية ومضت أيامها) (تصدق بها حية ناذر) فاعل تصدق (لمعينة) ولو فقيرا.

 (قوله: ولو تركت التضحية إلخ) شروع في بيان قضاء الأضحية إذا فاتت عن وقتها فإنها مضمونة بالقضاء في الجملة، كما في البدائع.

(قوله: ومضت أيامها إلخ) قيد به لما في النهاية: إذا وجبت بإيجابه صريحا أو بالشراء لها، فإن تصدق بعينها في أيامها فعليه مثلها مكانها، لأن الواجب عليه الإراقة وإنما ينتقل إلى الصدقة إذا وقع اليأس عن التضحية بمضي أيامها، وإن لم يشتر مثلها حتى مضت أيامها تصدق بقيمتها، لأن الإراقة إنما عرفت قربة في زمان مخصوص ولا تجزيه الصدقة الأولى عما يلزمه بعد لأنها قبل سبب الوجوب اهـ (قوله: تصدق بها حية) لوقوع اليأس عن التقرب بالإراقة، وإن تصدق بقيمتها أجزأه أيضا لأن الواجب هنا التصدق بعينها وهذا مثله فيما هو المقصود اهـ ذخيرة."

(كتاب الأضحية: 6/ 320،ط:سعید)

 کفایت المفتی میں ہے:

"  قربانی کے جانور یا گائے کے ساتویں حصہ کی قیمت خیرات کرے۔"

(جدید ۸: ۲۱۲، ط: دار الاشاعت )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا وكل في أداء الزكاة أجزأته النية عند الدفع إلى الوكيل فإن لم ينو عند التوكيل ونوى عند دفع الوكيل جاز كذا في الجوهرة النيرة وتعتبر نية الموكل في الزكاة دون الوكيل كذا في معراج الدراية فلو دفع الزكاة إلى رجل وأمره أن يدفع إلى الفقراء فدفع، ولم ينو عند الدفع جاز."

(كتاب الزكوة، الباب الاول فى تفسير الزكوة، ج:1، ص:171، ط:مكتبه رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولذا لو امر غيره بالدفع عنه جاز."

(کتاب الزکوۃ، ج:2، ص:270، ط:سعید، وکذا في البحر، ج:2، ص:212، ط:سعيد)

 فتاوی شامي میں ہے :

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليًا عن الحدث (ولو حكمًا) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل، (وحكمه الوضوء) لا غسل ثوبه ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في {لدلوك الشمس} (ثم يصلي) به (فيه فرضا ونفلا) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق".

(رد المحتار، کتاب الطهارة، باب الحيض: 1 / 305 ط:سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144311100743

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں