اگر قربانی گھر کے سربراہ پر واجب هو اور صرف ایک هي قربانی کی گنجائش هو اور وہ پچھلے كئي سالوں سے قربانی بھی کررہا هو تو کیا وہ اب اپنی زوجہ کے نام سے قربانی کر سکتا هےیا اپنے مرحوم والدین کی طرف سے؟
جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض اور دیگر بنیادی اخراجات کی رقم منہا کرنے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو، یا تجارت کا سامان، یا ضرورت و استعمال سے زائد کسی بھی قسم کا اتنا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص کے پاس اَیامِ نحر (دس، گیارہ اور بارہ ذی الحجہ) میں اوپر ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق نصاب کے بقدر مال ہو اور اس پر اتنا قرضہ نہ ہو کہ اگر اس قرضہ کو نکالا جائے تو نصاب کی قیمت سے کم رقم بچ جائے تو مذکورہ شخص پر اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہوگا۔
نیز قربانی کا حکم ہر سال صاحبِ نصاب شخص کی طرف متوجہ ہوتا ہے، گزشتہ سالوں کی قربانی سے موجودہ سال کی قربانی کا وجوب ختم نہیں ہوگا، جیسے زکات صاحبِ نصاب شخص پر ہر سال الگ الگ واجب ہوتی ہے۔
لہذا قربانی واجب ہونے کی صورت میں اگر مذکورہ شخص کے پاس ایک قربانی کی گنجائش ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ پہلے اپنی واجب قربانی ادا کرے ، پھر اگر گنجائش ہو تو بیوی کی طرف سے یا مرحوم والدین کے ایصالِ ثواب کے لیے الگ سے قربانی کا حصہ کرلے یا اپنی طرف سے قربانی کرکے اس کا ثواب ان کو بھی پہنچادے۔
فتاوی قاضی خان میں ہے:
"و لو ضحی عن میت من مال نفسه بغیر أمر المیت جاز، و له أن یتناول منه و لایلزمه أن یتصدق به؛ لأنها لم تصر ملکًا للمیت؛ بل الذبح حصل علی ملکه، و لهذا لو کان علی الذابح أضحیة سقطت عنه."
(فتاویٰ قاضي خان علی هامش الفتاویٰ الهندیة ۳؍۳۵۲ )
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144211201689
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن