بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی سے پہلے ناخن اور بال کٹوانا


سوال

یکم  ذو الحجہ  سے  قربانی ہونے  تک بال اورناخن کاٹنے کے بارے میں کیا حکم ہے،  کیا یہ واجب ہے؟

جواب

جوشخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو   اس کے لیےذی الحجہ کا چاند نظر آجانے کے بعد بال اور ناخن نہ کاٹنا مستحب اور باعثِ ثواب امر ہے، واجب یا ضروری نہیں ہے۔اس کو واجب سمجھنا درست نہیں ہے۔چناں چہ حدیث شریف میں ہے:

'' عن سعید بن المسیب یقول: سمعت أم سلمة زوج النبي صلی اﷲ علیه وسلم تقول: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: من کان له ذبح یذبحه، فإذا أهل هلال ذي الحجة، فلا یأخذن من شعره، ولا من أظفاره شیئاً حتی یضحي''۔ (الصحيح لمسلم ، عشر ذي الحجة وهو مرید التضحیة، النسخة الهندیة ۲/ ۱۶۰، بیت الأفکار، رقم: ۱۹۷۷)

’’حضرت امِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ماہ ذی الحجہ کا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں میں سے کچھ نہ لے ‘‘۔(صحیح مسلم )

فتاوی شامی میں ہے:

'' فهذا محمول علی الندب دون الوجوب بالإجماع''۔ (شامي، الصلاة، قبیل باب الکسوف، زکریا ۳/ ۶۶، شامي کراچی ۲/ ۱۸۱)

لہذا اگر کسی نے ذوالحجہ شروع ہوجانے کے بعد قربانی سے پہلے بال یا ناخن کاٹ لیے تو اس کا یہ عمل ناجائز یا گناہ نہیں کہلائےگا، بلکہ خلافِ اولیٰ ہو گا اور اگر کوئی عذر ہو یا بال اور ناخن بہت بڑھ چکے ہوں تو ان کے کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہےبلکہ  اگر غیر ضروری بال یا ناخن کاٹے ہوئے چالیس دن پورے ہورہے ہوں تو فوراً بلاتاخیر یہ بال یا ناخن کاٹنا ضروری ہوگا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

يستحب (حلق عانته وتنظيف بدنه بالاغتسال في كل أسبوع مرة) والأفضل يوم الجمعة في كل خمسة عشرة وكره تركه وراء الأربعين مجتبى
قوله وكره تركه) أي تحريما لقول المجتبى ولا عذر فيما وراء الأربعين ويستحق الوعيد اهـ وفي أبي السعود عن شرح المشارق لابن ملك روى مسلم عن أنس بن مالك «وقت لنا في تقليم الأظفار وقص الشارب ونتف الإبط أن لا نترك أكثر من أربعين ليلة» وهو من المقدرات التي ليس للرأي فيها مدخل فيكون كالمرفوع اهـ (الدر المختارکتاب الحظر والاباحة ٤٠٧/٦)
  فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144111201850

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں