بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث میں قربانی سے پہلے بال اور ناخن نہ کاٹنے کا حکم ہونے کے باوجود یہ عمل مستحب کیوں ہے؟


سوال

ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن ناخن نہ کاٹنے کا حکم حدیث مبارک میں انتہائی تاکید کے ساتھ ہے۔ یہ استحباب کا حکم کس بنا پر لگایا جاتا ہے؟

جواب

جوشخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو   اس کے لیےذی الحجہ کاچاند ہوجانے کے بعد بال اور ناخن نہ کاٹنا مستحب اور باعثِ ثواب امر ہے، چناں چہ حدیث شریف میں ہے:

’’حضرت امِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ماہ ذی الحجہ کا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں میں سے کچھ نہ لے۔ ‘‘ (صحیح مسلم )

یہ حکم   جمہور علماء امت کے نزدیک  استحباب پر محمول ہے، اور یہ ممانعت تنزیہی ہے ، اس لیے کہ  ”امر“  جس طرح  وجوب کے لیے آتا ہے، اسی طرح دیگر  وجوہات  و قرائن کی صورت میں ”استحباب “ کے لیے بھی آتا ہے؛  اس لیے  دیگر روایات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ   قربانی سے پہلے  یہ عمل ناجائز نہیں  ہے۔

لہذا عشرہ ذوالحجہ میں بال اور ناخن نہ کٹوانا مستحب ہے، اور اس کے خلاف عمل کرنا ترکِ اولیٰ ہے، یعنی اگر کسی نے ذوالحجہ شروع ہوجانے کے بعد قربانی سے پہلے بال یا ناخن کاٹ لیے تو اس کا یہ عمل ناجائز یا گناہ نہیں ہوگا، بلکہ خلافِ اولیٰ کہلائے گا۔ اور اگر کوئی عذر ہو یا بال اور ناخن بہت بڑھ چکے ہوں تو ان کے کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر غیر ضروری بال یا ناخن کاٹے ہوئے چالیس دن پورے ہورہے ہوں تو قربانی سے پہلے یہ بال یا ناخن کاٹنا ضروری ہوگا۔

حدیث شریف میں ہے :

"عن سعید بن المسیب یقول: سمعت أم سلمة زوج النبي صلی اﷲ علیه وسلم تقول: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: من کان له ذبح یذبحه، فإذا أهل هلال ذي الحجة، فلا یأخذن من شعره، ولا من أظفاره شیئاً حتی یضحي."

(الصحيح لمسلم ، عشر ذي الحجة وهو مرید التضحیة، النسخة الهندیة ۲/ ۱۶۰، بیت الأفکار، رقم:۱۹۷۷)

فتاوی شامی میں ہے:

مَطْلَبٌ فِي إزَالَةِ الشَّعْرِ وَالظُّفُرِ فِي عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ

[خَاتِمَةٌ] قَالَ فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ: وَفِي الْمُضْمَرَاتِ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ فِي تَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ وَحَلْقِ الرَّأْسِ فِي الْعَشْرِ أَيْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ قَالَ لَا تُؤَخَّرُ السُّنَّةُ وَقَدْ وَرَدَ ذَلِكَ وَلَا يَجِبُ التَّأْخِيرُ اهـ وَمِمَّا وَرَدَ فِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَأَرَادَ بَعْضُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَايَأْخُذَنَّ شَعْرًا وَلَايُقَلِّمَنَّ ظُفُرًا» فَهَذَا مَحْمُولٌ عَلَى النَّدْبِ دُونَ الْوُجُوبِ بِالْإِجْمَاعِ، فَظَهَرَ قَوْلُهُ: وَلَا يَجِبُ التَّأْخِيرُ إلَّا أَنَّ نَفْيَ الْوُجُوبِ لَا يُنَافِي الِاسْتِحْبَابَ فَيَكُونُ مُسْتَحَبًّا إلَّا إنْ اسْتَلْزَمَ الزِّيَادَةَ عَلَى وَقْتِ إبَاحَةِ التَّأْخِيرِ وَنِهَايَتُهُ مَا دُونَ الْأَرْبَعِينَ فَلَا يُبَاحُ فَوْقَهَا. قَالَ فِي الْقُنْيَةِ: الْأَفْضَلُ أَنْ يُقَلِّمَ أَظْفَارَهُ وَيَقُصَّ شَارِبَهُ وَيَحْلِقَ عَانَتَهُ وَيُنَظِّفَ بَدَنَهُ بِالِاغْتِسَالِ فِي كُلِّ أُسْبُوعٍ، وَإِلَّا فَفِي كُلِّ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، وَلَا عُذْرَ فِي تَرْكِهِ وَرَاءَ الْأَرْبَعِينَ وَيَسْتَحِقُّ الْوَعِيدَ فَالْأَوَّلُ أَفْضَلُ وَالثَّانِي الْأَوْسَطُ وَالْأَرْبَعُونَ الْأَبْعَدُ اهـ."

( كتاب الصلاة، باب العيدين، ۲/ ۱۸۱، ط: دار الفكر)

الحاوي الكبير للماوردي میں ہے:

[مسألة:]قال الشافعي: " وَأَمَرَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ أَنْ لَا يَمَسَّ مِنْ شَعْرِهِ شَيْئًا اتِّبَاعًا وَاخْتِيَارًا بِدَلَالَةِ السُّنَّةِ وَرَوَتْ عَائِشَةُ أَنَّهَا كَانَتْ تَفْتِلُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - ثُمَّ يُقَلِّدُهَا هُوَ بِيَدِهِ ثَمَّ يَبْعَثُ بِهَا فَلَمْ يَحْرُمْ عَلَيْهِ شيءٌ أَحَلَّهُ اللَّهُ لَهُ حَتَى نَحَرَ الْهَدْيَ (قَالَ الشَّافِعِيُّ) رَحِمَهُ اللَّهُ: وَالْأُضْحِيَّةُ سُنَّةُ تطوعٍ لَا نُحِبُّ تَرْكَهَا وَإِذْ كَانَتْ غَيْرَ فرضٍ".

قَالَ الْمَاوَرْدِيُّ: وَأَصْلُ هَذَا مَا رَوَاهُ الشَّافِعِيُّ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: "إذا دَخَلَ الْعَشْرُ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَمَسَّ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا بَشَرِهِ شَيْئًا". وَرَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ الْحَكَمِ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ رَأَى هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ " قَالَ: هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ.

وَاخْتَلَفَ الْفُقَهَاءُ فِي الْعَمَلِ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَلَى ثَلَاثَةِ مَذَاهِبَ: أَحَدُهَا: - وَهُوَ مَذْهَبُ الشَّافِعِيِّ - أنه مَحْمُولٌ عَلَى الِاسْتِحْبَابِ دُونَ الْإِيجَابِ، وَأَنَّ مِنَ السُّنَّةِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ أَنْ يَمْتَنِعَ فِي عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ مِنْ أَخْذِ شَعْرِهِ وَبَشَرِهِ، فَإِنْ أَخَذَ كُرِهَ لَهُ وَلَمْ يَحْرُمْ عَلَيْهِ. وَهُوَ قَوْلُ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ.

وَالْمَذْهَبُ الثَّانِي: هُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ وَإِسْحَاقَ بْنِ رَاهَوَيْهِ أَنَّهُ مَحْمُولٌ عَلَى الْوُجُوبِ وَأَخْذُهُ لِشَعْرِهِ وَبَشَرِهِ حَرَامٌ عَلَيْهِ، لِظَاهِرِ الْحَدِيثِ وَتَشْبِيهًا بِالْمُحْرِمِ.

وَالْمَذْهَبُ الثَّالِثُ: - وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَمَالِكٍ - لَيْسَ بِسُنَّةٍ وَ لَايُكْرَهُ أَخْذُ شَعْرِهِ وَبَشَرِهِ احْتِجَاجًا بِأَنَّهُ مُحِلٌّ، فَلَمْ يُكْرَهْ لَهُ أَخْذُ شَعْرِهِ وَبَشَرِهِ كَغَيْرِ الْمُضَحِّي، وَلِأَنَّ مَنْ لَمْ يَحْرُمْ عَلَيْهِ الطِّيبُ وَاللِّبَاسُ لَمْ يَحْرُمْ عَلَيْهِ حَلْقُ الشَّعْرِ كَالْمُحِلِّ."

( كتاب الضحايا، ۱۵ / ۷۳ - ۷۴، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200051

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں