بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی صاحب نصاب پر واجب ہے اس کی کوئی مدت مقرر نہیں


سوال

 کیا قربانی کرنے والوں کی کوئی مدت ہوتی ہے، مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے سات سال اپنے نام سے قربانی کی، میری مدت پوری ہو چکی ہے۔ اب میں اپنی بیوی، یا بچے وغیرہ کے نام سے دوں گا، کیا یہ صحیح  ہے؟

جواب

جس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں، ذمہ میں  واجب الادا اخراجات منہا کرنے کے بعد ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان  موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زائد ہو (خواہ ضرورت سے زائد مال نقدی ہو یا سونا چاندی ہو یا کسی اور شکل میں ہو، اسی طرح مالِ تجارت نہ بھی ہو) تو ایسے مرد وعورت پر شرعًا قربانی واجب ہے؛ لہٰذا بصورتِ مسئولہ   جب بھی قربانی کے ایام میں  کوئی شخص قربانی کے نصاب کا مالک ہوگا اس پر ہر مرتبہ قربانی واجب ہوگی خواہ وہ کتنے ہی سال سے قربانی کر رہا ہو، شرعًا اس کی کوئی مدت  نہیں ہے، باقی اگر بیوی صاحبِ نصاب ہے تو اس کے ذمہ الگ قربانی ہے، شوہر کے قربانی کرلینے سے اس کی قربانی ادا نہیں ہوگی، اور نہ شوہر کے اس کے نام سے قربانی کرنے سے شوہر کی ادا ہوگی، اور نابالغ  بچوں پر قربانی واجب نہیں، جو بچے بالغ اور صاحبِ نصاب ہوں، ان کے ذمے اپنی قربانی ادا کرنا خود واجب ہوگا۔

الفتاوى الهندية (1/ 191):
"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان".

 فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144112200765

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں