بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی میں جس جگہ جانور ہے وہاں کے وقت کا اعتبار ہو گا


سوال

میں یو کے میں  مقیم ہوں اور قربانی کے  لیے جب دوسرے ملکوں میں پیسے بھیجتے ہیں تو ہماری طرف سے قربانی یو کے کے وقت کے  مطابق ہوگی یا جس ملک میں پیسے بھیجے ہیں، اس ملک کے وقت کے حساب سے ہوگی ؟مثلاً اگر میں نے پاکستان پیسے بھیجے ہیں تو وہاں چار گھنٹے پہلے عید کی نماز ہوگی اور یو کے میں  میں نے ابھی عید کی نماز ادا نہیں کی تو کیا اس طرح قربانی کرنا ٹھیک ہوگا، یا جب ہم یو کے میں نماز ادا کرلیں تو پھر پاکستان میں قربانی کی جائے، لیکن اگر کسی چیریٹی کو پیسے دیں تو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ قربانی کس ملک میں کریں گے؟

جواب

 دوسرے ملک میں   رقم بھیج کر قربانی  کر  نا جائز ہے ، البتہ اس صورت میں  یہ   ضروری   ہے کہ   دونوں ملکوں میں عید کے ایام ہوں ، یعنی جس ملک میں قربانی کی جارہی ہے اس میں اور جس کی طرف سے قربانی کی جارہی ہےوہ جس  ملک میں ہےوہاں بھی عید کے ایام ہونا ضروری ہیں  ۔

صورتِ  مسئولہ میں پاکستان میں جس جگہ قربانی کی جارہی ہےاگر  وہاں جمعہ اور عیدین  کی نماز واجب ہے  تو وہاں عید کی نماز   سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں ، نماز سے فارغ ہو نے کے بعد قربانی کی جائے گی ،اوراگر قربانی ایسی جگہ کی جارہی ہوجہاں  جمعہ اورعیدین کی نماز واجب نہیں  یعنی  دیہات ہے    تو  وہاں صبح صادق طلوع ہونے کے بعد  سے قربانی کرنا درست ہے ، دونوں صورتوں میں یہ ضروری ہے کہ یوکے میں بھی عید کادن شروع ہوچکاہو،یہ ضروری نہیں  کہ سائل یوکے میں عید کی نمازپڑھ لے؛ لہٰذا یوکے میں جب  دس ذو الحجہ کی صبح صادق ہوجائے اور پاکستان میں بھی وہ عید کا پہلا دن ہو تو  پاکستان میں قربانی کرنا درست ہوگا۔ اور اگر یو کے میں  پاکستان سے ایک دن پہلے  عید ہو  تو پاکستان میں عید الاضحیٰ کے پہلے دن کی صبح صادق ہوتے ہی قربانی کرنا جائز ہوگا۔

نیز  کسی بھی چیریٹی ادارے کو قربانی کے   لیے رقم دینے سے پہلے آپ اس ادارے کی مکمل  معلومات کر یں ، جس پر آپ کو اعتماد اور دلی اطمینان ہو کہ وہ واقعی  شرعی تعلیمات اورہدایات کےمطابق درست طریقے سے  قربانی کرتا ہے تو ایسے ادارے کو قربانی کے پیسے دینا درست ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے : 

'وإن كان الرجل في مصر، وأهله في مصر آخر، فكتب إليهم أن يضحوا عنه روي عن أبي يوسف أنه اعتبر مكان الذبيحة، فقال: ينبغي لهم أن لايضحوا عنه حتى يصلي الإمام الذي فيه أهله، وإن ضحوا عنه قبل أن يصلي لم يجزه، وهو قول محمد - عليه الرحمة -. وقال الحسن بن زياد: انتظرت الصلاتين جميعاً، وإن شكوا في وقت صلاة المصر الآخر انتظرت به الزوال، فعنده لا يذبحون عنه حتى يصلوا في المصرين جميعاً، وإن وقع لهم الشك في وقت صلاة المصر الآخر لم يذبحوا حتى تزول الشمس، فإذا زالت ذبحوا عنه.
(وجه) قول الحسن: أن فيما قلنا اعتبار الحالين: حال الذبح وحال المذبوح عنه، فكان أولى. ولأبي يوسف ومحمد رحمهما الله أن القربة في الذبح، والقربات المؤقتة يعتبر وقتها في حق فاعلها لا في حق المفعول عنه'.

(کتاب التضحیۃ،74/5،دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والوقت المستحب للتضحية في حق أهل السواد بعد طلوع الشمس، وفي حق أهل المصر بعد الخطبة، كذا في الظهيرية.  ولو ذبح والإمام في خلال الصلاة لا يجوز، وكذا إذا ضحى قبل أن يقعد قدر التشهد، ولو ذبح بعد ما قعد قدر التشهد قبل السلام قالوا: على قياس على قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - لا يجوز كما لو كان في خلال الصلاة لأن الخروج من الصلاة بصنعه فرض عنده، كذا في البدائع. وهو الصحيح، كذا في خزانة المفتين".

(کتاب الاضحیۃ،295/5،رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144412100545

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں