بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کے لیے طے ہوئے جانور میں شریک ہونا


سوال

میرے ماموں کے پاس پہلے سے ہی اپنا ایک جانور تھا جس میں انہوں نے قربانی کی نیت کی تھی اب ہم چاہتے ہیں کہ ہم قیمت ادا کرکے اس میں شریک ہوجائے،  کیا ایسا کرنا ہمارے لیے درست ہے؟

جواب

واضح ہو کہ قربانی کا جانور خریدتے وقت جن لوگوں کی نیت سے خریدا گیا ہو، خریدنے کے بعد ان لوگوں کے علاوہ کسی کو اس جانور میں شریک کرنا مکروہ ہے، تاہم بڑے جانور میں سات حصوں تک شریک کر لینے سے سب شرکاء کی قربانی ادا ہوجائے گی، اور اگر جانور خریدنے والے صاحبِ نصاب نہ ہوں تو ان کے لیے کسی اور کو شریک کرنا جائز نہیں ہے، صورت مسئولہ میں سائل کے ماموں صاحبِ نصاب تھے تو  سائل  کو قربانی کےلیے طے کئے ہوئے جانور  میں شریک ہونا مکروہ ہےلیکن اگر شریک ہوا  تو بھی سب کی قربانی درست ہوگی، البتہ  اگر  سائل کے ماموں صاحبِ نصاب نہیں ہیں تو  سائل  کواس  جانور میں  شریک ہونا درست نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولو اشترى بقرة يريد أن يضحي بها، ثم أشرك فيها ستة يكره ويجزيهم؛ لأنه بمنزلة سبع شياه حكما، إلا أن يريد حين اشتراها أن يشركهم فيها فلا يكره، وإن فعل ذلك قبل أن يشتريها كان أحسن وهذا إذا كان موسرا، وإن كان فقيرا معسرا فقد أوجب بالشراء فلا يجوز أن يشرك فيها، وكذا لو أشرك فيها ستة بعد ما أوجبها لنفسه لم يسعه؛ لأنه أوجبها كلها لله تعالى".

(كتاب الأضحية، الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا، 5/ 304، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101308

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں