اگر کوئی شخص بنیتِ قربانی ایک جانور خریدے اور گھر آکر معلوم ہو کہ اس جانور کا عضو تناسل اپنے عام مقام سے جہاں عموماً ہوتا ہے یعنی پیٹ کے نیچے اور خصیے کی تھیلی کے سامنے وہاں نہیں بلکہ خصیے کی تھیلی کے درمیان میں ہے اب کیا یہ عیب شمار ہوگا یا نہیں جبکہ وہ جانور منفعت میں عام جانوروں کی طرح ہے جیسے جفتی اگر عیب شمار نہیں تو پھر ظاہر ہے کہ وہ جانور قربانی کے لیے درست ہے لیکن اگر عیب ہو تو پھر کیا اس جانور کو بیچ کر اس کی محصول رقم سے کوئی اور قربانی کے لئے جانور خریدنا جائز ہے یا اس جانور کو صدقہ کرنا واجب ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ جانور میں کوئی ایسا عیب نہیں ہے جو کہ قربانی سے مانع ہو لہذا اس جانور کی قربانی جائز ہے۔
مندرجہ ذیل عیب دار جانوروں کی قربانی درست نہیں ہے:
فتاوی شامی میں ہے:
"ويضحي بالجماء والخصي والثولاء) أي المجنونة (إذا لم يمنعها من السوم والرعي) (، وإن منعها لا) تجوز التضحية بها (والجرباء السمينة) فلو مهزولة لم يجز، لأن الجرب في اللحم نقص (لا) (بالعمياء والعوراء والعجفاء) المهزولة التي لا مخ في عظامها (والعرجاء التي لا تمشي إلى المنسك) أي المذبح، والمريضة البين مرضها (ومقطوع أكثر الأذن أو الذنب أو العين) أي التي ذهب أكثر نور عينها فأطلق القطع على الذهاب مجازا، وإنما يعرف بتقريب العلف (أو) أكثر (الألية) لأن للأكثر حكم الكل بقاء وذهابا فيكفي بقاء الأكثر، وعليه الفتوى مجتبى (ولا) (بالهتماء) التي لا أسنان لها، ويكفي بقاء الأكثر، وقيل ما تعتلف به (والسكاء) التي لا أذن لها خلقة فلو لها أذن صغيرة خلقة أجزأت زيلعي (والجذاء) مقطوعة رءوس ضرعها أو يابستها، ولا الجدعاء: مقطوعة الأنف، ولا المصرمة أطباؤها: وهي التي عولجت حتى انقطع لبنها، ولا التي لا ألية لها خلقة مجتبى، ولا بالخنثى لأن لحمها لا ينضج شرح وهبانية، وتمامه فيه (و) لا (الجلالة) التي تأكل العذرة ولا تأكل غيرها."
(جلد۶ ص: ۳۲۳، ط: سعید )
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144409101781
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن