قربانی کے جانور کے عمر کے سلسلے میں انگریزی سال کا اعتبار ہے یا عربی سال کا اعتبار ہے اسی طرح جانور کے مکمل عمر سے دو چار دن دو چار گھنٹے رہ جاۓ کیا قربانی جائز ہوگی ؟
شرعی اَحکام کا تعلق مثلًا رمضان و حج اور دیگر احکام کا تعلق قمری تاریخ کے اعتبار سے ہی کیا جاتا ہے،نیز عید الاضحی میں بھی قمری تاریخ کا ہی اعتبار کیا جاتا ہے،لہذا جانور کی عمر میں بھی قمری سال کا اعتبار کیا جائے گا۔ نیز عمر کے اندر مکمل ایام پورے ہونا ضروری ہے، اور اگر ایام پورے نہ ہوں یا کوئی دن مکمل نہ ہو بلکہ کوئی جانور(جس کا سال پورا ہونا ضروری ہے) اس کے ایک سال پورے ہونے میں آدھا دن یا چند گھنٹے بھی کم ہوں تو اس کی قربانی جائز نہیں ۔
فتاوى هنديہ میں ہے:
"(وأما سنّه) فلايجوز شيء مما ذكرنا من الإبل و البقر و الغنم عن الأضحية إلا الثني من كل جنس و إلا الجذع من الضأن خاصةً إذا كان عظيماً، وأما معاني هذه الأسماء فقد ذكر القدوري: أن الفقهاء قالوا: الجذع من الغنم ابن ستة أشهر، والثني ابن سنة. والجذع من البقر ابن سنة، والثني منه ابن سنتين. والجذع من الإبل ابن أربع سنين، والثني ابن خمس. وتقدير هذه الأسنان بما قلنا: يمنع النقصان، و لايمنع الزيادة، حتى لو ضحى بأقل من ذلك شيئاً لايجوز، ولو ضحى بأكثر من ذلك شيئاً يجوز ويكون أفضل".
( کتاب الاضحیہ 5/ 297 بیروت )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511100464
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن