بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 ربیع الاول 1446ھ 21 ستمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی میں ایک حصہ اللہ تعالی کے نام پر کرنے کا حکم


سوال

کیا بڑے جانور میں سے ایک حصہ خالص اللہ تعالی کے نام کا رکھ سکتے ہیں۔مطلب چھ حصے موجودہ بندوں کے اور ساتواں حصہ اللہ تعالی کے نام کا ،کیا یہ جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرایک حصہ قربانی اللہ تعالی کے نام پر کرنے کا مقصد یہ  ہو کہ سارے شرکاء اس حصہ میں شریک ہوکر اللہ تعالی کے نام پرصدقہ کردیں،تو اس کی جائز صورت یہ ہے کہ  تمام شرکاء  ساتویں حصے میں اپنی اپنی رقم کا مالک  کسی ایک آدمی کو  بنادیں  اوروہ  اپنے قبضہ میں رقم لےکر ایک حصہ کی قربانی کردےتو   یہ صورت جائز ہوجاۓ گی اور  سارے شرکاء ثواب  کے حق دار ہوں  گے۔ 

اور سوال کا مقصد کچھ اور ہے تو وضاحت کے ساتھ سوال دوبارہ ارسال کردیجیے!

فتاوی شامی میں ہے:

"(فتجب) التضحية: أي إراقة الدم من النعم عملًا لا اعتقادًا ... (على حر مسلم مقيم) ... (موسر) يسار الفطرة (عن نفسه لا عن طفله) على الظاهر، بخلاف الفطرة (شاة) بالرفع بدل من ضمير تجب أو فاعله (أو سبع بدنة) هي الإبل و البقر؛ سميت به لضخامتها، و لو لأحدهم أقل من سبع لم يجز عن أحد، و تجزي عما دون سبعة بالأولى (فجر) نصب على الظرفية (يوم النحر إلى آخر أيامه)."

(کتاب الأضحیه، 313/315/316/6، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100170

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں