بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کے جانور فروخت کرکے نفع کمانا


سوال

کیا قربانی کے نام سے جانور خرید کر اس میں مزید نفع کمانا درست ہے یعنی  5000 میں خریدا  اور  دس ہزار  میں بیچا،  کیا یہ درست ہے؟

جواب

اگر آپ کے سوال سے مقصود کسی شخص کا اپنے لیے قربانی کا جانور خریدنا اور پھر اسے فروخت کرکے نفع کمانا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ :

اگر مال دار آدمی یعنی صاحبِ نصاب شخص نے قربانی کا جانور قربانی کی نیت سے لیا تو اس کے لیے اس کو فروخت کرنا مناسب نہیں ہے، لیکن اگر فروخت کرلیا تو بیع درست ہوجائے گی، پھر اس کے بعد دوسرا جانور اس سے کم قیمت کا نہ خریدے،اگر دوسرا جانور پہلے سے کم قیمت پر لیا تو پہلے اور دوسرے جانور کی قیمت میں جتنا فرق ہو وہ صدقہ کردینا ضروری ہے۔

اور اگر کسی غریب شخص نے  جس پر قربانی واجب نہیں تھی، قربانی کے لیے جانور خرید لیا یعنی خریدتے وقت قربانی کی نیت کی تھی ،تو اب اس غریب شخص پر اس جانور کی قربانی لازم ہے، اس جانور کو فروخت کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔

اور اگر سوال سے مقصود اس کے علاوہ ہے تو دوبارہ وضاحت کے ساتھ لکھ کر جواب طلب فرمالیں۔

 تنوير الأبصار مع الدر المختار :

"(وفقير) عطف عليه (شراها لها)؛ لوجوبها عليه بذلك حتى يمتنع عليه بيعها، (و) تصدق (بقيمتها غني شراها أولا)؛ لتعلقها بذمته بشرائها أولا، فالمراد بالقيمة قيمة شاة تجزي فيها. (قوله: لوجوبها عليه بذلك) أي بالشراء، وهذا ظاهر الرواية؛ لأن شراءه لها يجري مجرى الإيجاب، وهو النذر بالتضحية عرفاً، كما في البدائع". ( شامي، ٦/ ٣٢١)

وفیه أیضاً:

"ويكره أن يبدل بها غيرها أي إذا كان غنياً، نهاية، فصار المالك مستعيناً بكل من يكون أهلاً للذبح آذناً له دلالةً اهـ". ( ٦/ ٣٢٩)

الفتاوى الهندية:

"ولو باع الأضحية جاز، خلافاً لأبي يوسف رحمه الله تعالى، ويشتري بقيمتها أخرى ويتصدق بفضل ما بين القيمتين". ( ٥/ ٣٠١) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201121

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں