قربانی کے جانور میں بچے کے عقیقے کا حصہ ڈال سکتے ہیں؟
باپ کے نام کی جگہ شوہر کا نام لکھوانا کیسا ہے؟
1۔چھوٹے جانور میں یا بڑے جانور کے صرف ایک حصے میں شرعاً صرف ایک ہی نیت کی جاسکتی ہے، خواہ قربانی کی نیت ہو یا عقیقہ کی، ایک حصے میں دو نیتیں درست نہیں ۔
البتہ قربانی کے بڑے جانور (اونٹ، گائے، بھینس وغیرہ) کے سات حصوں میں قربانی کے حصہ کے علاوہ عقیقہ کی نیت سے مستقل حصہ شامل کیا جاسکتا ہے، جو حصہ عقیقہ کی نیت کا ہوگا وہ عقیقہ شمار ہوگا، باقی حصے قربانی کے شمار ہوں گے۔
2۔ولدیت کی نسبت غیر والد کی طرف کرنا شرعًا جائز نہیں ہے؛ اس لیےولدیت کی جگہ والد کا ہی نام لکھنا ضروری ہے،باقی شناختی کارڈ وغیرہ میں جب مقصود تعارف اور شناخت ہے تو (شوہر کی جگہ ) شوہر کا نام لکھنے میں شرعًا کوئی حرج نہیں ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"لا يشارك المضحي فيما يحتمل الشركة من لا يريد القربة رأسا، فإن شارك لم يجز عن الأضحية، وكذا هذا في سائر القرب إذا شارك المتقرب من لا يريد القربة لم تجز عن القربة، ولو أرادوا القربة - الأضحية أو غيرها من القرب - أجزأهم سواء كانت القربة واجبة أو تطوعا أو وجب على البعض دون البعض، وسواء اتفقت جهات القربة أو اختلفت بأن أراد بعضهم الأضحية وبعضهم جزاء الصيد وبعضهم هدي الإحصار وبعضهم كفارة عن شيء أصابه في إحرامه وبعضهم هدي التطوع وبعضهم دم المتعة أو القران وهذا قول أصحابنا الثلاثة رحمهم الله تعالى، وكذلك إن أراد بعضهم العقيقة عن ولد ولد له من قبل، كذا ذكر محمد - رحمه الله تعالى - في نوادر الضحايا...."
(کتاب الاضحیۃ،الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا،ج5،ص304،ط؛دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411101644
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن