بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کے جانور کے دودھ کے عوض اُس کے لیے چاره کا بندوبست کرنا


سوال

 سات آدمیوں نے مل کر قربانی کا جانور خریدا اور جانور کے مالک سے کہا کہ آپ جانور کا دووھ استعمال کریں یا بیچ دیں اور اس کے بدلے میں  قربانی کے دن تک جانور کو چاره کھلائیں اور جانور جس سے خریدا گیا ہے اس کا قربانی میں حصہ بھی نہیں ہے ،تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟

جواب

قربانی کے جانور کا دودھ دوہنا ہی نہیں چاہیے؛ بلکہ کوئی ایسی تدبیر کرنی چاہیے کہ تھن میں دودھ جمع ہی نہ ہو ، فقہاء نے اس کے لیے تھن پر ٹھنڈا پانی چھڑکنے کی تدبیر تحریر فرمائی ہے ، لیکن اگر دودھ نہ دوہنے کی صورت میں جانور کو تکلیف ہو ، جس کی وجہ سے ضرورتاً اُس کا دودھ دوہنا پڑے تو اس دودھ کو یا اُس کی قیمت کوصدقه کرنا واجب ہے ، البتہ اگر جانور کے لیے چارہ خرید کر اُس کو کھلانا پڑے تو پھر اُس کے دودھ   کے عوض میں اُس کے لیے چارہ خرید کر کھلانا درست ہے۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں اول تو قربانی کے جانور کا دودھ دوہنا ہی نہیں چاہیے تھا ، لیکن اگر ضرورتاً یا لا علمی کی وجہ سے اُس کا دودھ دوھ لیا گیا تھا تو وه جانور کے سابقہ مالک کو دے کر اُس کے عوض جانور کے لیے چاره کا بندوبست کرنا جائز تھا ۔

فتاوٰی شامی میں ہے :

"(وکرہ) (جز صوفها قبل الذبح) لینتفع به، فإن جزہ تصدق به، ولا یرکبھا ولا یحمل علیها شیئا ولا یؤجرها فإن فعل تصدق بالأجرة حاوی الفتاوی لأنہ التزم إقامة القربة بجمیع أجزائھا (بخلاف ما بعدہ) لحصول المقصود مجتبی (ویکرہ الانتفاع بلبنها قبله) کما فی الصوف، ومنهم من أجازهما للغنی لوجوبهما فی الذمة فلا تتعین زیلعی.... قال ابن عابدين:(قوله ویکرہ الانتفاع بلبنها) فإن کانت التضحیة قریبة ینضح ضرعها بالماء البارد وإلا حلبه وتصدق به کما فی الکفایة."

( کتاب الأضحية، 329/6، ط: سعید)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ولو اشترى بقرة حلوبة وأوجبها أضحية فاكتسب مالا من لبنها يتصدق بمثل ما اكتسب ويتصدق بروثهافإن ‌كان ‌يعلفها فما اكتسب من لبنها أو انتفع من روثها فهو له، ولا يتصدق بشيء، كذا في محيط السرخسي."

(کتاب الأضحية، الفصل السادس فی بیان ما یستحب فی الأضحية والانتفاع بھا،  301/5، ط: رشيدية)

المحيط البرهانی میں ہے:

"ويتصدق بلحمها؛ قال البقالي في «كتابه» : وما أصاب من لبنها تصدق بمثله أو قيمته، وكذا الأرواث إلا أن يعلفها بقدرها."

(كتاب الأضحية، فصل فی الانتفاع، 95/6، ط: دارالکتب العلمية)

احسن الفتاوٰی میں ہے:

"مندرجہ ذیل صورتوں میں قربانی کے جانور کا دودھ استعمال میں لانا اور  اس سے نفع حاصل کرنا بلا کراہت جائزہے: ......  ۳۔ قربانی کی نیت سے خریدا ہو ، مگر اس کا گزر باہر چرنے  پر نہ ہو ، بلکہ گھر میں چارہ کھاتا ہو۔"

(کتاب الاضحیة والعقيقة ، 478/7 ،  ط :  سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100406

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں