بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کے گوشت کو تقسیم کرنے کا طریقہ/ وقف قربانی کا حکم


سوال

1: قربانی کے گوشت کی تقسیم کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

2: وقف قربانی کرنا یعنی کہ سارا گوشت غرباء میں تقسیم کردینا کیسا ہے؟

3: وقف قربانی کرنے سے کیا میری طرف سے قربانی ادا ہو جائے گی ؟ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

1: قربانی کے گوشت  کی تقسیم میں مال دار اور  صاحبِ  وسعت شخص کے لیے بہتر یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرکے؛ ایک حصہ غرباء  میں بانٹے، ایک حصہ رشتہ داروں اور دوست احباب میں بانٹ  دے یا دعوت میں کھلا دے اور  ایک حصہ اپنے  کھانے کے لیے محفوظ رکھے، اور اگر کوئی سارا گوشت صدقہ کردے یا سارا اپنے پاس رکھ لے تو یہ بھی جائز ہے،  لہٰذا اپنے حالات کو دیکھتے ہوئے اگر کوئی شخص غریبوں میں گوشت تقسیم نہ کرے تو شرعاً اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

2: وقف قربانی اگر منت اور نذر کی نہ ہو تو اس گوشت سے حصہ لیے بغیر دوسروں کی مدد کرنا اور غرباء میں تقسیم کرنا جائز اور باعث اجر  ہے۔

3: وقف قربانی سے مراد چوں کہ سارا گوشت تقسیم کرنا مقصود ہوتا ہے، اس لئے اس  میں اپنا واجب قربانی والا  حصہ ڈالنے سے اپنے آپ پر واجب شدہ قربانی بھی ہوجائےگی، ا لگ سے قربانی کرنا لازم نہیں ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"والأفضل أن يتصدق بالثلث ويتخذ الثلث ضيافة لأقاربه وأصدقائه ويدخر الثلث لقوله تعالى {فكلوا منها وأطعموا القانع والمعتر} [الحج: 36] وقوله - عز شأنه - {فكلوا منها وأطعموا البائس الفقير} [الحج: 28] وقول النبي - عليه الصلاة والسلام - «كنت نهيتكم عن لحوم الأضاحي فكلوا منها وادخروا» فثبت بمجموع الكتاب العزيز والسنة أن المستحب ما قلنا ولأنه يوم ضيافة الله - عز وجل - بلحوم القرابين فيندب إشراك الكل فيها ويطعم الفقير والغني جميعا لكون الكل أضياف الله تعالى - عز شأنه - في هذه الأيام وله أن يهبه منهما جميعا، ولو تصدق بالكل جاز ولو حبس الكل لنفسه جاز؛ لأن القربة في الإراقة.

(وأما) التصدق باللحم فتطوع وله أن يدخر الكل لنفسه فوق ثلاثة أيام؛ لأن النهي عن ذلك كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ بما روي عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه قال «إني كنت نهيتكم عن إمساك لحوم الأضاحي فوق ثلاثة أيام ألا فأمسكوا ما بدا لكم» وروي أنه - عليه الصلاة والسلام - قال «إنما نهيتكم لأجل الرأفة دون حضرة الأضحى» ألا إن إطعامها والتصدق أفضل إلا أن يكون الرجل ذا عيال وغير موسع الحال فإن الأفضل له حينئذ أن يدعه لعياله ويوسع به عليهم؛ لأن حاجته وحاجة عياله مقدمة على حاجة غيره قال النبي - عليه الصلاة والسلام - «ابدأ بنفسك ثم بغيرك»".

(کتاب النذر، بیان رکن النذر وشرائطہ، ج:5، ص:81، ط:دارالکتب العلمیۃ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله ويأكل من لحم الأضحية إلخ) هذا في الأضحية الواجبة والسنة سواء إذا لم تكن واجبة بالنذر، وإن وجبت به فلا يأكل منها شيئا ولا يطعم غنيا سواء كان الناذر غنيا أو فقيرا لأن سبيلها التصدق وليس للمتصدق ذلك، ولو أكل فعليه قيمة ما أكل زيلعي".

(کتاب الاضحیۃ، ج:6، ص:327، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100345

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں