بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 محرم 1447ھ 02 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

قربانی کس پر واجب ہے؟


سوال

اگر کوئی بیٹا جو دبئی میں رہتا ہو اور وہ اپنا مال اپنے باپ کو دیتا ہو تو کیا اس بیٹے اور باپ دونوں پر الگ الگ قربانی کرنا واجب ہے یا صرف باپ پر واجب ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قربانی ہر اُس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان، مرد و عورت پر واجب ہے جو  عید الاضحٰی کے ایام میں نصاب کا مالک ہو، یعنی قربانی کے دنوں میں جس کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا (87.4875گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی (612.4125گرام ) یا اس کی قیمت کے برابر رقم موجود ہو، یا اس کی ملکیت میں ضرورت  و استعمال سے زائد اتنا سامان موجود ہو، جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر بنتی ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر باپ اور بیٹا دونوں نصاب کے مالک ہوں تو دونوں پر الگ الگ قربانی واجب ہوگی، ایک کی قربانی دوسرے کے لیے کافی نہیں ہوگی، البتہ اگر والد اپنے لیے اور بیٹے کی اجازت سے اس کے لیے، یا بیٹا اپنے لیے اور والد کی اجازت سے ان کے لیے الگ الگ قربانی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، شرعًا اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اس سے دوسرے کی واجب قربانی ادا ہوجائے گی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) كما مر (لا الذكورة فتجب على الأنثى) خانية.

وفي الرد: (قوله والإقامة) فالمسافر لا تجب عليه وإن تطوع بها أجزأته عنها وهذا إذا سافر قبل الشراء، فإن المشتري شاة لها ثم سافر ففي المنتقى أنه يبيعها ولا يضحي بها أي لا يجب عليه ذلك، وكذا روي عن محمد. ومن المشايخ من فصل فقال: إن كان موسرا لا يجب عليه وإلا ينبغي أن يجب عليه ولا تسقط بسفره، وإن سافر بعد دخول الوقت قالوا ينبغي أن يكون الجواب كذلك اهـ ط عن الهندية ومثله في البدائع (قوله واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضا يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية."

(كتاب الأضحية، ج:6، ص:312، ط:ايج ايم سعيد)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"وقال الحسن بن زياد في كتاب الأضحية: إن كان أولاده صغارا جاز عنه وعنهم جميعا في قول أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى -، وإن كانوا كبارا إن فعل بأمرهم جاز عن الكل في قول أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى، وإن فعل بغير أمرهم أو بغير أمر بعضهم لا تجوز عنه ولا عنهم في قولهم جميعا؛ لأن نصيب من لم يأمر صار لحما فصار الكل لحما."

(كتاب الأضحية، الباب السابع، ج:5، ص:302، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144612100481

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں