بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کس پر واجب ہے؟ رہائشی مکان پر قربانی لازم ہے؟مشترکہ مال تجارت پر قربانی؟


سوال

 ۱)قربانی کس پر واجب ہے؟

۲)والد،بھائی اور میں، ہم کو جو (salary)کے پیسے ملتے تھے ،وہ ہم گھر پر دیتے تھے، اس میں سے والدہ گھر چلاتی تھیں، اور اس میں سے کچھ پیسے بچایا کرتیں، پھر اُس کو جمع کرکے  اس رقم  سے سونا بنوایا،سونا اتنا تھا کہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہوتا تھا، تو ہم زکوۃ بھی نکا لتے تھے ،اور قربانی بھی کرتے تھے، قربانی ایک یا  دو بکرے کی، ہم دو کمرے کے مکان میں رہتے تھے،ہم نے  اپنے دو کمرے کا مکان فروخت  کیا 25 لاکھ  میں،پھر ہم نے    تین کمرے کا مکان خریدا 55لاکھ روپے  میں،والدہ  نے  تنخواہ کی رقم  سے بچت کرکے جو رقم جمع کرکے اس سے  سونا جمع کیا تھا، اس  سونے کو بیچ کر 15لاکھ  روپے ملے تھے،ہمارے پاس دس لاکھ روپےکم پڑ رہے تھے،  تو ہم نے کسی سے قرض لیا تھا،تو اب اس  گھر میں سے قربانی ہوگی یا نہیں؟

۳) جس دن ہم نے تین کمرے کے مکان لیا، اسے دن والدہ کو  بھی حصّہ ملا تو ہم نے اس حصے کے پیسے سے اور جو کچھ پیسے ہمارے پاس تھے ہم نے  ایک دکان کھولی،ہم  نے یہ بھی طے نہیں کیا دکان کس کی ہے،  جب سے دکان کھلی ہے تب سے لے چھ مہینے تک دکان سے پیسے گھر میں نہیں دیے، پھر چھے مہینے بعد دکان سے 60000 گھر میں دیے، پھر دکان کو سال پورا ہوا تو میں نے دکان سے زکات بھی  نکالی، اب مسئلہ یہ ہے کے تجارتی مال پر زکوۃ اور قربانی دونوں واجب ہے،لیکن مسئلہ یہ ہے قربانی کس کی طرف سے ہوگی؟دکان میں اور میرا چھوٹا بھائی چلا رہے ہیں،نیز ہم گھر میں چھ افراد ہیں۔

جواب

1۔قربانی ہر  ایسے  عاقل، بالغ اور مقیم  مسلمان مرد و عورت  پر واجب ہے، جس کی ملکیت میں قرض نکال  کر ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت ہو یا اس قیمت کے بقدر مال تجارت ہو  یا ضرورت سے زائد   کپڑے ، گھریلو سامان،  مکان یا جائیداد   ہو  تو  اس پر قربانی واجب ہے۔

2۔ یہ مکان ضرورت کا ہے، کیوں کہ آپ لوگوں کی اس مکان میں رہائش ہے، اور جس مکان میں رہائش ہو، اس مکان  کے سبب قربانی  واجب نہیں ہوتی۔

3۔سب پہلے سائل اور اس کے گھر والے یہ طے  کریں کہ اس کاروبار میں ہر ایک کتنے  فیصد کاروبار کا مالک ہے، پھر جب فیصد طے ہوجاۓ تو  دوکان میں جو مال تجارت ہے ،اس کو  فیصدی اعتبار سے تقسیم کرکے دیکھیں،  جس جس کے حصے میں  حصے میں آنے والے حصے کی قیمت  ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر ہوگی اس پر قربانی لازم ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به .... قال ابن عابدين: (قوله وشرائطها) أي شرائط وجوبها، ولم يذكر الحرية صريحا لعلمها من قوله واليسار، ولا العقل والبلوغ لما فيها من الخلاف كما يأتي، والمعتبر وجود هذه الشرائط آخر الوقت وإن لم تكن في أوله كما سيأتي (قوله والإقامة) فالمسافر لا تجب عليه وإن تطوع بها أجزأته ... (قوله واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضا يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية ولو له عقار يستغله فقيل تلزم لو قيمته نصابا، وقيل لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفا، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم، وصاحب الثياب الأربعة لو ساوى الرابع نصابا غنى وثلاثة فلا،...... والمرأة موسرة بالمعجل لو الزوج مليا وبالمؤجل لا."

(كتاب الأضحية،312/6، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما) (شرائط الوجوب) : منها اليسار وهو ما يتعلق به وجوب صدقة الفطر دون ما يتعلق به وجوب الزكاة، وأما البلوغ والعقل فليسا بشرط حتى لو كان للصغير مال يضحي عنه أبوه أو وصيه من ماله ولا يتصدق به ولا يضمنان عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى، وإن تصدق بها ضمن، كذا في محيط السرخسي. ومنها الإسلام فلا تجب على الكافر ولا يشترط الإسلام في جميع الوقت من أوله إلى آخره حتى لو كان كافرا في أول الوقت، ثم أسلم في آخره تجب عليه؛ لأن وقت الوجوب منفصل عن أداء الواجب فيكفي في وجوبها بقاء جزء من الوقت، ومنها الحرية فلا تجب على العبد وإن كان مأذونا في التجارة أو مكاتبا، ولا يشترط أن يكون حرا من أول الوقت بل تكفي فيه الحرية في آخر جزء من الوقت، حتى لو عتق في آخر الوقت وملك نصابا تجب عليه الأضحية، ومنها الإقامة فلا تجب على المسافر ولا تشترط الإقامة في جميع الوقت حتى لو كان مسافرا في أول الوقت ثم أقام في آخره تجب عليه، ولو كان مقيما في أول الوقت ثم سافر ثم أقام تجب عليه، هذا إذا سافر قبل أن يشتري الأضحية فإن اشترى شاة للأضحية ثم سافر ذكر في المنتقى: له أن يبيعها ولا يضحي بها، وكذا روي عن محمد - رحمه الله تعالى - أنه يبيعها، ومن المشايخ من فصل بين الموسر والمعسر فقال: إن كان موسرا فالجواب كذلك، وإن كان معسرا ينبغي أن تجب عليه ولا تسقط عنه بالسفر، وإن سافر بعد دخول الوقت قالوا: ينبغي أن يكون الجواب كذلك، وجميع ما ذكرنا من الشروط يستوي فيه الرجل والمرأة، كذا في البدائع."

(كتاب الأضحية، الباب الأول في تفسير الأضحية وركنها وصفتها وشرائطها وحكمها، 292/5، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102675

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں