بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کس حج میں واجب ہے؟


سوال

قربانی کس حج میں واجب ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قربانی دو طرح کی ہوتی ہے:

1۔ ایک قربانی تو وہ ہے جو  صاحبِ نصاب مقیم شخص پر واجب ہوتی ہے خواہ حج کرنے جائے یا نہ جائے، اگر حاجی(حجِ افراد، حجِ تمتع اور حجِ قران والا) صاحبِ نصاب ہے اور  قربانی کے دنوں میں مکہ مکرمہ میں مقیم ہے یعنی منیٰ جانے سے پہلے مکہ مکرمہ میں پندرہ دن اس کا قیام ہو  یا مستقل وہیں رہتا ہے،  تو اس پر یہ قربانی واجب ہے، اور اسے اختیار ہے کہ  چاہے تو مکہ مکرمہ یا مدینہ مٰیں  قربانی کا انتظام کرے یا اپنے وطن میں قربانی کی رقم بھیج دے یا وطن میں کسی کو قربانی کرنے کا کہہ دے، البتہ منیٰ میں قربانی کرنے کا ثواب پوری دنیا کی تمام جگہوں سے زیادہ ہے۔ 

2۔  دوسری قربانی سے مراد "دمِ شکر" ہے، یہ حجِ قِران (حج اور عمرہ دونوں کی اکٹھے نیت کرکے اداکرنا)اور تمتع(عمرہ مکمل کرکے احرام کھول کر ایامِ حج میں حج کی نیت کرنا) کرنے والوں  پر ایامِ نحر  (10،11،12 ذوالحجہ) میں  حلق (سرمنڈوانے) یا بال کٹوانے سے پہلے منیٰ یا حدود حرم میں واجب ہے،حجِ افراد  (صرف حج) کرنے والوں پر یہ قربانی واجب نہیں ہے۔

خلاصہ یہ ہوا کہ حجِ افراد والا شخص اگر مقیم اور صاحبِ نصاب ہو تو اس پر مقیم اور صاحبِ نصاب ہونے کی حیثیت سے صرف ایک قربانی واجب ہے، جب کہ حجِ قران اور تمتع کرنے والا شخص اگر مقیم اور صاحبِ نصاب ہو تو اس پر دو قربانیاں واجب ہیں، ایک قربانی مقیم اور صاحبِ نصاب ہونے کی حیثیت سے اور دوسری دمِ شکر کے طور پر واجب ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وشرعا (ذبح حيوان مخصوص بنية القربة في وقت مخصوص. وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)."

(كتاب الأضحية، ج:٦، ص:٣١٢، ط:سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"إذا رمى جمرة العقبة يوم النحر يذبح دم القران وهذا الدم نسك من المناسك...ويجب الدم على المتمتع شكرا لما أنعم الله تعالى عليه بتيسير الجمع بين العبادتين كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب المناسك، الباب السابع في القران والتمتع، ج:١، ص:٢٣٩، ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101944

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں