بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کی قضاء کا حکم


سوال

غلط فہمی (نصاب کے برابر مال نہیں ہے سمجھنے کی وجہ) سے مسلسل 2 سال قربانی نہیں کی، اب اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ جس مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے دنوں میں  ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے بقدر قیمت کوئی سامان یا اثاثہ ہو جو بنیادی ضرورت سے زائد ہو  تو شرعاً اس پر قربانی واجب ہے، اور جب تک اس کے پاس یہ نصاب باقی رہے گا، ہر سال اس کے ذمے قربانی واجب ہوگی، اگر کسی وجہ سے قربانی نہ کرسکے، تو وہ معاف نہیں ہے، بلکہ اس کی قضا میں ہر قربانی کے بدلے ایک متوسط بکرا یا بکری کی قیمت فقراء میں  صدقہ کرنا شرعاً اس پر واجب ہے، يہ جائز نہيں كہ قربانی کی قضاء جانور ذبح کرکے کرے یعنی  قربانی كے دنوں ميں يا قربانی كے دنوں كے علاوه ميں جانور ذبح كرے، یہ درست نہیں۔

المبسوط للسرخسی میں ہے :

"وأما ‌بعد ‌مضي ‌أيام ‌النحر فقد سقط معنى التقرب بإراقة الدم؛ لأنها لا تكون قربة إلا في مكان مخصوص وهو الحرم، وفي زمان مخصوص وهو أيام النحر.

ولكن يلزمه التصدق بقيمة الأضحية إذا كان ممن تجب عليه الأضحية؛ لأن تقربه في أيام النحر كان باعتبار المالية فيبقى بعد مضيها والتقرب بالمال في غير أيام النحر يكون بالتصدق، ولأنه كان يتقرب بسببين إراقة الدم والتصدق باللحم، وقد عجز عن أحدهما وهو قادر على الآخر فيأتي بما يقدر عليه."

(باب الاضحیۃ،ج:۱۲،ص:۱۴،دارالمعرفۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100118

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں