غلط فہمی (نصاب کے برابر مال نہیں ہے سمجھنے کی وجہ) سے مسلسل 2 سال قربانی نہیں کی، اب اس کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ جس مسلمان مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے دنوں میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے بقدر قیمت کوئی سامان یا اثاثہ ہو جو بنیادی ضرورت سے زائد ہو تو شرعاً اس پر قربانی واجب ہے، اور جب تک اس کے پاس یہ نصاب باقی رہے گا، ہر سال اس کے ذمے قربانی واجب ہوگی، اگر کسی وجہ سے قربانی نہ کرسکے، تو وہ معاف نہیں ہے، بلکہ اس کی قضا میں ہر قربانی کے بدلے ایک متوسط بکرا یا بکری کی قیمت فقراء میں صدقہ کرنا شرعاً اس پر واجب ہے، يہ جائز نہيں كہ قربانی کی قضاء جانور ذبح کرکے کرے یعنی قربانی كے دنوں ميں يا قربانی كے دنوں كے علاوه ميں جانور ذبح كرے، یہ درست نہیں۔
المبسوط للسرخسی میں ہے :
"وأما بعد مضي أيام النحر فقد سقط معنى التقرب بإراقة الدم؛ لأنها لا تكون قربة إلا في مكان مخصوص وهو الحرم، وفي زمان مخصوص وهو أيام النحر.
ولكن يلزمه التصدق بقيمة الأضحية إذا كان ممن تجب عليه الأضحية؛ لأن تقربه في أيام النحر كان باعتبار المالية فيبقى بعد مضيها والتقرب بالمال في غير أيام النحر يكون بالتصدق، ولأنه كان يتقرب بسببين إراقة الدم والتصدق باللحم، وقد عجز عن أحدهما وهو قادر على الآخر فيأتي بما يقدر عليه."
(باب الاضحیۃ،ج:۱۲،ص:۱۴،دارالمعرفۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144402100118
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن