بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کی کھال مال دار کو دینا


سوال

قربانی کی کھال فقیر کو دینا لازمی ہے یا امیر کو بھی دے سکتے ہیں؟ نیز اس کا مسلمان ہونا شرط ہے یا نہیں؟

جواب

قربانی کی کھال جب تک  فروخت نہ کی جائے قربانی کرنے والے کو اس میں تین قسم کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں:

(1) خود استعمال کرنا۔ (2) کسی کو ہدیہ کے طور پر دینا۔ (3) فقراء اور مساکین پر صدقہ کرنا۔

تاہم اگر قربانی کی کھال نقد رقم یا کسی چیز کے  عوض فروخت کردی گئی تو اس کی قیمت  صدقہ کرنا واجب ہے، اور کھال کی قیمت کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے؛ لہٰذا کھال کی قیمت کسی مال دار کو دینا جائز نہیں ہے، بلکہ فقیر کو دینا ضروری ہے۔ البتہ اگر قربانی کی کھال ہی ہدیہ کے طور پر دینی ہو تو وہ مال دار، فقیر  اور غیر مسلم کو دینا بھی جائز ہے۔

"فتاوی شامی" میں ہے:

(ويتصدق بجلدها أو يعمل منه نحو غربال وجراب) وقربة وسفرة ودلو (أو يبدله بما ينتفع به باقياً) كما مر (لا بمستهلك كخل ولحم ونحوه) كدراهم، (فإن) (بيع اللحم أو الجلد به) أي بمستهلك (أو بدراهم) (تصدق بثمنه).

(6/328، کتاب الاضحیۃ، ط: سعید)

وفي الفتاوی البزازیة علی هامش الهندية:

وله أن یبیعها بالدراهم لیتصدق بها، لا أن ینتفع بالدراهم أو ینفقها علی نفسه ، فإن باع لذالك تصدق بالثمن.

(6/294، کتاب الاضحیۃ، ط: رشیدیہ)  

"فتاوی شامی" میں ہے:

وهو مصرف أيضاً لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة، كما في القهستاني.

(2/339، باب المصرف، ط:سعید)

الفتاوى الهندية (5/ 300):

ويهب منها ما شاء للغني والفقير والمسلم والذمي، كذا في الغياثية.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201201309

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں