بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کے جانور میں دو حصے عقیقہ کی نیت کرنا درست ہے


سوال

 قربانی کے جانور میں دو حصے عقیقہ کی نیت کرسکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

جی ہاں! قربانی کے بڑے  جانور (اونٹ، گائے، بھینس وغیرہ) کے سات حصوں میں قربانی کے حصےکے علاوہ عقیقہ کی نیت سے مستقل حصہ  شامل کیا جاسکتا ہے،  جو  حصے قربانی کی نیت سے  ہیں وہ قربانی کے اور جتنے  عقیقہ کے  حصے ہیں اتنے عقیقہ کے حصے ادا ہوجائیں گے ،قربانی کے ساتھ عقیقہ کرتے ہوئے  قربانی کی گائے وغیرہ  میں لڑکے کے لیے دو حصے اور لڑکی کے لیے ایک حصہ رکھ لے، یہ مستحب ہے۔

بدائع الصنائع  میں ہے :

"أما الذي يرجع إلى من عليه التضحية فمنها نية الأضحية لا تجزي الأضحية بدونها؛ لأن الذبح قد يكون للحم وقد يكون للقربة والفعل لا يقع قربة بدون النية؛ قال النبي - عليه الصلاة والسلام - لا عمل لمن لا نية له والمراد منه عمل هو قربة..(ولنا) أن الجهات - وإن اختلفت صورة - فهي في المعنى واحد؛ لأن المقصود من الكل التقرب إلى الله - عز شأنه - وكذلك إن أراد بعضهم العقيقة عن ولد ولد له من قبل؛ لأن ذلك جهة التقرب إلى الله تعالى - عز شأنه - بالشكر على ما أنعم عليه من الولد."

 (‌‌كتاب التضحية، فصل في شرائط جواز إقامة الواجب في الأضحية،ج:5، ص:71، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے :

"قد علم أن الشرط قصد القربة من الكل ..وكذا لو أراد بعضهم العقيقة عن ولد قد ولد له من قبل؛ لأن ذلك جهة التقرب بالشكر على نعمة الولد ذكره محمد".

( کتاب الاضحیة،  ج:3، ص:326ط: سعید)

شرح مختصر الطحاوي للجصاص" میں ہے:

قال: (والعقيقة تطوع، من شاء فعلها، ومن شاء تركها)..وقال: "من ولد له فأحب أن ينسك عنه، فلينسك عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة.وظاهر هذا اللفظ يدل على أنها غير واجبة، لأنه قال: "من أحب أن ينسك عن ولده، فليفعل"، فعلق فعله بمحبته."

(كتاب الصيد والذبائح، ج:7، ص:292، ط:دار البشائر الإسلامية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100405

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں