بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 ربیع الثانی 1446ھ 07 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کے جانور میں عیب کی صورت میں دوسرے جانور میں قیمت کی برابری ضروری ہے


سوال

ایک صاحب نصاب نے عید کی قربانی کے لیے دنبہ 35،000 ہزار میں خریدا اور وہ بیمار ہوگیا اور مرنے کے خوف سے اسے 20،000 میں فروخت کردیا، اور دوسرا جانور قربانی کے لیے 25،000 میں خرید لیا یعنی دس ہزار پہلے والے سے سستا خریدا تو کیا اب پہلے جانور کے ساتھ قیمت میں برابری کرنا ضروری ہے اس کے لیے یا نہیں؟ یعنی دس ہزار اسے صدقہ کرنا ضروری ہوگا؛ تاکہ پہلے والے جانور کی قیمت کے ساتھ برابری ہوجائے؟

آپ کے ادارے کا ایک فتوی بھی اسی طرح ہے کہ غنی شخص دوسرا جانور خریدتے وقت اس بات کا خیال رکھنا پڑے گا کہ وہ پہلے جانور سے کم قیمت والا نہ ہو، اگر دوسرا جانور پہلے کی قیمت سے کم قیمت میں خرید لیا تو دونوں جانوروں کی قیمت کے فرق کے بقدر رقم صدقہ کرنی پڑے گی۔ فتوی نمبر : 144210201048

برائے مہربانی یہ وضاحت بتادیجیے کہ ابھی راجح قول کون سا ہے فتوی کس قول پر ہے؟ "احسن الفتاوی"  کے مطابق عمل ہوگا یا جو آپ کا فتوی ہے اس پر عمل ہوگا ؟  آج کل لوگ 2 لاکھ میں بھی جانور خریدتے ہے اگر وہ بیمار ہوجاۓ اور مرنے کے خوف سے اسے 1 لاکھ میں فروخت کردے تو کیا اب دوسرے جانور میں بھی جو فرق 1 لاکھ آیا ہے اس کا لحاظ کیا جائے گا ،  لیکن احسن فتاوی میں مسئلہ اس کے برعکس بتایا گیا ہے،  اس میں حضرت شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ غنی پر دوسرے جانور کی قربانی واجب ہے قیمت میں برابری ضروری نہیں ہے۔ 

احسن الفتاوی جلد 7 ص504

سوال : زید نے قربانی کا جانور خریدا ، یہ مر گیا یا گم ہو گیا ، کیا دوسرا جانور خرید کر قربانی کرنا فرض ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو پہلے جانور کی قیمت کے برابر کاہوناضروری ہے یا کم قیمت کا بھی کافی ہے؟ ایک عالم دین کہتے ہیں کہ قیمت میں برابری ضروری ہے اور دلیل میں درمختار کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں:

"و كذا الثانية لوقيمتها كالأولى أو أكثر، و إن أقلّ ضمن الزائد و يتصدق به بلافرق بين غني و فقير."

کیا ان کا استدلال صحیح ہے؟ بینوا توجروا۔

الجواب باسم ملهم الصواب

غنی پر دوسرے جانور کی قربانی واجب ہے ، قیمت میں برابری ضروری نہیں ۔ فقیر پر کچھ بھی واجب نہیں ۔

قال الإمام طاهر بن عبد الرشيد البخاري رحمه الله تعالى:

"و الفقير لوسرق شاته و لم يشتر أخرى ليس عليه أخرى، و الغنى يجب عليه أخرى؛ لأن الوجوب على الفقير بالشراء، و الشراء يتناول هذا المعين فوجب التضحية به فسقط الواجب  بهلاك هذا المعين."

(خلاصة الفتاوى ص ٣١٨ ج 4 )

و قال الإمام الكاساني رحمه الله تعالى:

"و لواشترى أضحية و هي صحيحة ثم اعورت عنده و هو موسر  أو قطعت أذنها كلها أو أليتها أو ذنبها أو انكسرت رجلها فلم تستطع أن تمشي، لاتجزي عنه و علیه مكانها أخرى لما بينا، و كذلك إن ماتت عنده أوسرقت."

(بدائع ص٧٤ ج ۵)

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر کسی شخص نے قربانی کے لیے کوئی جانورخریداتھا  جسےبعد میں کسی وجہ سے فروخت کرلیا اور دوسراجانورخریداتو اس صورت میں دوسراجانورپہلے جانور کی قیمت سے کم نہیں ہوناچاہیے اور اگر دوسرا جانور پہلے جانور کی قیمت سے کم قیمت میں خرید لیا تو دونوں جانوروں کی قیمت کے فرق کے بقدر رقم صدقہ کرنی پڑے گی۔

واضح رہے کہ مذکورہ مسئلہ قربانی کے جانور یعنی واجب قربانی کے متعلق ہے  تاہم نفلی قربانی میں اگر ایک  جانور کی فروختگی کے بعددوسراجانورخریدا جائےتو اس صورت میں پہلے  جانور کے ہم   قیمت  ہونا ضروری نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو) (اشتراها سليمة ثم تعيبت بعيب مانع) كما مر (فعليه إقامة غيرها مقامها إن) كان (غنيا، وإن) كان (فقيرا أجزأه ذلك) وكذا لو كانت معيبة وقت الشراء لعدم وجوبها عليه بخلاف الغني."

(كتاب الأضحية، ج:6، ص:،325، ط:سعيد )

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

"وكذا إذا اشترى شاة سليمة ثم تعيبت بعيب مانع إن كان غنيا عليه غيرها وإن كان فقيرا تجزيه هذه لما ذكرنا أن الوجوب على الغني بالشرع ابتداء لا بالشراء وعلى هذا قالوا إذا ‌ماتت المشتراة للتضحية فعلى الموسر مكانها أخرى ولا شيء على الفقير."

(كتاب الأضحية، ج:2، ص:188، ط:المطبعة الخيرية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل اشترى شاة للأضحية وأوجبها بلسانه، ثم اشترى أخرى جاز له بيع الأولى في قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى -، وإن كانت الثانية شرا من الأولى وذبح الثانية فإنه يتصدق بفضل ما بين القيمتين؛ لأنه لما أوجب الأولى بلسانه فقد جعل مقدار مالية الأولى لله تعالى فلا يكون له أن يستفضل لنفسه شيئا، ولهذا يلزمه التصدق بالفضل قال بعض مشايخنا: هذا إذا كان الرجل فقيرا فإن كان غنيا فليس عليه أن يتصدق بفضل القيمة، قال الإمام شمس الأئمة السرخسي الصحيح أن الجواب فيهما على السواء يلزمه التصدق بالفضل غنيا كان أو فقيرا؛ لأن الأضحية وإن كانت واجبة على الغني في الذمة فإنما يتعين المحل بتعيينه فتعين هذا المحل بقدر المالية لأن التعيين يفيد في ذلك."

(كتاب الأضحية، الباب الثاني في وجوب الأضحية بالنذر وما هو في معناه،ج:5،ص:294، ط: دار الفكر )

فتاوی شامی میں ہے:

"(وفقير) عطف عليه (شراها لها)؛ لوجوبها عليه بذلك حتى يمتنع عليه بيعها، (و) تصدق (بقيمتها غني شراها أولا)؛ لتعلقها بذمته بشرائها أولا، فالمراد بالقيمة قيمة شاة تجزي فيها.
(قوله: لوجوبها عليه بذلك) أي بالشراء، وهذا ظاهر الرواية؛ لأن شراءه لها يجري مجرى الإيجاب، وهو النذر بالتضحية عرفاً، كما في البدائع".

(كتاب الأضحية، ج:6، ص:،321، ط:سعيد )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101749

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں