سات آدمیوں نے قربانی کے لیے ایک بھینس خریدی، ان حصہ داروں میں سے ایک نے یہ کہا کہ بھینس کو نہلانے وغیرہ کی میری ذمہ داری رہے گی، اس کے لیے مجھ کو ایک سو روپیہ اجرت دے دیجیے گا، سب حصہ دار راضی ہوگئے اور ایک دن کی ایک سو روپے کی اجرت دے دی گئی تو کیا اس حصہ دار کو اجرت لینا درست ہے؟ اسی طرح ایک حصہ دار نے کہا کہ بھینس کو بنانے کے لیے قصائی نہ بلایاجائے، میں خود بنادوں گا، مجھ کو اس کی اجرت دے دیجیے گا، بقیہ حصہ دار راضی ہوگئے اور مطلوبہ اجرت حصہ دار کو دے کر بھینس بنوالی تو کیا حصہ دار کا اجرت لینا شرعًا درست ہے؟
صورتِ مسئولہ میں قربانی کے بڑے جانور میں کسی ایک حصہ دار کا جانور کو نہلانے وغیرہ یا ذبح کرنے کی مقررہ اجرت پر ذمہ داری دینا درست نہیں ہے، اور اس کے لیے اجرت پر یہ معاملہ کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے جس جانور کو نہلانے یا ذبح کرنے کی وہ اجرت لے رہا ہے اس میں خود اس کا حصہ بھی ہے اور اپنی ہی چیز کی بھی خود ہی اجرت وصول کررہا ہے،اور شراکت کے ساتھ ساتھ ایک شریک بطورِ اجرت کام کرے، اس صورت میں شریک کا اجیر ہونا لازم آتا ہے اور شرکت اوراجارہ جمع نہیں ہوسکتے ۔
الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 60):
’’(ولو) استأجره (لحمل طعام) مشترك (بينهما فلا أجر له)؛ لأنه لا يعمل شيئاً لشريكه إلا ويقع بعضه لنفسه؛ فلايستحق الأجر.‘‘
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144112201083
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن