بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کے جانور میں عقیقہ کرنا اور گوشت کی تقسیم


سوال

کیا قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ کر سکتے ؟ اور گوشت کی تقسیم کا کیا حکم ہے؟

جواب

قربانی کے  بڑے جانور  (گائے ، بیل اور اونٹ وغیرہ ) میں  سات حصے ہوتے ہیں اور اس میں قربانی کے ساتھ عقیقہ کا حصہ بھی  ڈالا جاسکتا ہے،اس سے اس جانور میں جتنے حصے قربانی کے ہیں وہ قربانی کے اور جتنے  عقیقہ کے  حصہ ہیں اتنے عقیقہ کے حصے ادا ہوجائیں گے ،قربانی کے ساتھ عقیقہ کرتے ہوئے  قربانی کی گائے وغیرہ  میں لڑکے کے لیے دو حصے اور لڑکی کے لیے ایک حصہ رکھ لے، یہ مستحب ہے۔

لیکن چھوٹے جانور میں یا  بڑے جانور کے سات حصے میں کسی ایک حصہ میں  شرعاً صرف  ایک  فرد ہی  کی نیت کی جاسکتی ہے، خواہ قربانی کی نیت  ہو یا  عقیقہ کی، نہ تو ایک حصے میں دو افراد کی قربانی کی نیت کی جاسکتی ہے نہ ایک کی قربانی اور ایک کے عقیقہ کی ۔

نیز عقیقہ کے گوشت کا وہی حکم ہے جو قربانی کے گوشت کا ہے، لہذا اگر جانور میں قربانی اور عقیقہ دونوں کے حصے ہوں اور جانور میں کوئی اور شریک نہ ہو  تو  اس گوشت کی تقسیم ضروری نہیں ہے اور نہ ہی اس میں سے عقیقہ کا حصہ الگ کرنا ضروری ہے۔(اعلاء السنن، کتاب الذبائح، ۱۷/۱۲۶، ط: ادارۃ القرآن)۔

باقی قربانی  اور عقیقہ کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنا مستحب ہے، ایک تہائی حصہ فقراء ومساکین کے لیے، ایک حصہ رشتہ داروں اور اقارب کے لیے اور ایک حصہ گھروالوں کے لیے۔اگر مکمل گوشت خود رکھ لیں یا اس کی دعوت کردیں تو جائز یہ بھی ہے، البتہ خلافِ اولیٰ ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين  (6 / 326):

"[تنبيه] قد علم أن الشرط قصد القربة من الكل، وشمل ما لو كان أحدهم مريدا للأضحية عن عامه وأصحابه عن الماضي تجوز الأضحية عنه ونية أصحابه باطلة وصاروا متطوعين، وعليهم التصدق بلحمها وعلى الواحد أيضاً؛ لأن نصيبه شائع، كما في الخانية، وظاهره عدم جواز الأكل منها، تأمل. وشمل ما لو كانت القربة واجبةً على الكل أو البعض اتفقت جهاتها أو لا، كأضحية وإحصار وجزاء صيد وحلق ومتعة وقران خلافاً لزفر؛ لأن المقصود من الكل القربة، وكذا لو أراد بعضهم العقيقة عن ولد قد ولد له من قبل؛ لأن ذلك جهة التقرب بالشكر على نعمة الولد ذكره محمد."

بدائع الصنائع  (5/ 81):

" والأفضل أن يتصدق بالثلث ويتخذ الثلث ضيافة لأقاربه وأصدقائه ويدخر الثلث لقوله تعالى {فكلوا منها وأطعموا القانع والمعتر} [الحج: 36] وقوله - عز شأنه - {فكلوا منها وأطعموا البائس الفقير} [الحج: 28] وقول النبي عليه الصلاة والسلام: «كنت نهيتكم عن لحوم الأضاحي فكلوا منها وادخروا» فثبت بمجموع الكتاب العزيز والسنة أن المستحب ما قلنا ولأنه يوم ضيافة الله عز وجل بلحوم القرابين فيندب إشراك الكل فيها ويطعم الفقير والغني جميعا لكون الكل أضياف الله تعالى عز شأنه  في هذه الأيام وله أن يهبه منهما جميعاً، ولو تصدق بالكل جاز ولو حبس الكل لنفسه جاز؛ لأن القربة في الإراقة".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200753

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں