بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1446ھ 20 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

قربانی کے جانور کونمائش (دکھاوا )کے طورپیش کرنے کا حکم


سوال

جو شخص قربانی کررہا ہے، کیا وہ اپنی قربانی کی نمائش (دکھاوا) کر سکتا ہے؟ جیسا کہ آج کل ہمارے ہاں ہو رہا ہے کہ لوگ قربانی کا جانور لا کر اپنے گھر کے باہر دکھاتے ہیں۔ اور یہ جو قربانی کو جان بوجھ کر بہت مہنگا کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے غریب اور درمیانے طبقے کے لوگ متاثر ہو رہے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟

جواب

قربانی  کا بنیادی  مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور تقویٰ کا حصول ہے، اور اس کے لیے شرط اخلاص اور للٰہیت ہے،   جب کہ ریاکاری ، دکھلاوااور   نام ونمود    اس کی ضد ہے اور یہ  نیک عمل کے ثواب کو ختم کردیتی ہے بلکہ  گناہ اور وبال کا ذریعہ بن جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی عمل مقبول ہے جو خالص اللہ کی رضا وخوشنودی کے لیے کیا جائے، ریا کاری ودکھلاوے کا جانور کتنا ہی قیمتی ہو اللہ کی نظر میں اُس کی کوئی قیمت نہیں۔

لہذا اگر کوئی شخص ریا اور نام نمود سے بچتے ہوئے  محض اللہ کی رضا کے لیے   مہنگا ، خوبصورت اور عمدہ جانور خریدتا ہے ، اور اس کی  باقاعدہ نمائش وغیرہ نہیں کرتا اور اس کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کرتا ہے تو یہ جائز ہے، اس کا اجر وثواب اس کو ملے گا ، وگرنہ ثواب سے محرومی ہوگی۔

  اگر    دکھلاوے کے طور پر  یا فیشن کی پیروی میں مہنگا ترین جانور خرید کر     اس  کی باقاعدہ نمائش کی جائے،  اور   اس نمائش میں مرد وزن  کا اختلاط   یا دیگر طرح  طرح کے مفاسد  بھی ہوں تو   یہ قربانی کے مقصد اور اخلاص کی روح کے منافی ہے، اس لیے اس سے اجتناب ضروری ہے۔

باقی رہا شریعت میں نفع لینے کی کوئی حد متعین نہیں ہے ،جتنا چاہیں نفع لے سکتے ہیں ،بشرطیکہ جھوٹ نہ بولیں اور گاہک کو دھوکا نہ دیں ،البتہ کسی  کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر جانور  کو اس کی اصل کی قیمت سے زیادہ نفع پر بیچنا جس کو عرف میں"غبن فاحش" سمجھاجاتا ہو یہ مروت کےخلاف ہے ،اس سے بچنا بہتر ہے ۔

چنانچہ ارشاد  باری تعالیٰ ہے:

"وَالَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَاءَ النَّاسِ وَلا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَمَنْ يَكُنْ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِيناً فَسَاءَ قَرِيناً"(سورہ النساء 38)

ترجمہ:"جو لوگ  کہ اپنے مالوں کو لوگوں کے دکھلاوے کے لیےخرچ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر اورآخری دن پراعتقاد نہیں رکھتےاور شیطان جس کا مصاحب ہو،اس کا بُرا مصاحب ہے۔"

( بیان القرآن)

ایک اور مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالأَذَى كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ "(سورة البقرة 264)

ترجمہ:"اے ایمان والو! تم احسان جتا کر یا ایذا پہنچا کراپنی خیرات کوبرباد مت کرو! جس طرح وہ شخص جو اپنا مال خرچ کرتا ہے لوگوں کو دکھلانےکی غرض سے اور ایمان نہیں رکھتااللہ پراور یومِ قیامت پر."

(بیان القرآن)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن جندب قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «‌من ‌سمع سمع الله به ومن يرائي يرائي الله به» . متفق عليه"

(كتاب الرقاق،باب الرياء والسمعة،الفصل الأول467،ط:رحمانية)

ترجمہ:"جوشخص شہرت کے لیے کوئی عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے عیوب ظاہر کر دے گا اور جو دکھاوے کے لیے عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اُسے رسوا کر دے گا۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144612100124

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں