بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کے جانور میں عقیقہ کرنے والا آدمی حصہ ڈال سکتا ہے یا نہیں؟ / عقیقے میں جانور ذبح کرنے کے بجائے پیسے مدرسہ میں دینا جائزہے یا نہیں؟


سوال

قربانی  کے  جانور  میں عقیقہ کرنے  والا آدمی  حصہ ڈال سکتا ہے یا نہیں؟  دوسرا سوال یہ ہے کہ عقیقہ کے جو  پیسے ہوتے ہیں وہ عقیقہ کرنے کے  بجائے  مدرسہ کو  دیا جائے، کیا یہ درست ہے؟

جواب

1: قربانی  کے  جانور  میں عقیقہ کرنے والا آدمی حصہ ڈال سکتا ۔

2: عقیقہ کی نیت سے جانور یا حصے کی رقم مدرسے میں دی جائے اور اربابِ مدرسہ کو بتادیا جائے کہ یہ عقیقہ کی مد میں ہے، اور مدرسہ انتظامیہ جانور خرید کر عقیقے کی نیت سے ذبح کردیں تو عقیقہ ہوجائے گا، البتہ عقیقه   میں جانور  ذبح کرنے کے  بجائے  صرف پیسے   مدرسہ میں دینے سے  عقیقہ ادا نہیں ہوگا ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو أرادوا القربة - الأضحية أو غيرها من القرب - أجزأهم سواء كانت القربة واجبة أو تطوعا أو وجب على البعض دون البعض، وسواء اتفقت جهات القربة أو اختلفت بأن أراد بعضهم الأضحية وبعضهم جزاء الصيد وبعضهم هدي الإحصار وبعضهم كفارة عن شيء أصابه في إحرامه وبعضهم هدي التطوع وبعضهم دم المتعة أو القران وهذا قول أصحابنا الثلاثة رحمهم الله تعالى، وكذلك إن أراد بعضهم العقيقة عن ولد ولد له من قبل، كذا ذكر محمد - رحمه الله تعالى - في نوادر الضحايا."

(الفتاوى الهندية: كتاب الاضحية، الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا (5/ 304)،ط. رشيديه ، كوئته باكستان)

بدائع الصنائع میں ہے:

(ومنها) أن لا يقوم غيرها مقامها حتى لو تصدق بعين الشاة أو قيمتها في الوقت لا يجزيه عن الأضحية؛ لأن الوجوب تعلق بالإراقة والأصل أن الوجوب إذا تعلق بفعل معين أنه لايقوم غيره مقامه كما في الصلاة والصوم وغيرهما.

(بدائع الصنائع: كتاب الاضحية، فصل في أنواع كيفية الوجوب (5/ 66)،ط.دار الكتب العلمية، الطبعة: الثانية، 1406هـ - 1986م)

فقط، والله اعلم


فتوی نمبر : 144209201975

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں