کیا قربانی کے جانور کا دودھ دوہنا حرام ہے ، مع دلیل بتائیں۔
قربانی کی نیت سے جانور خریدنے کے بعد اس سے کسی بھی طرح کانفع اٹھانادرست نہیں، یعنی نہ اس پرسواری کی جاسکتی ہے، نہ اس کے بال کاٹے جاسکتے ہیں اورنہ ہی اس کادودھ دوہیا جاسکتاہے، لہذا اگر قربانی کے جانور کے تھنوں میں دودھ اتر آئے اور قربانی میں وقت کم ہو تو بہتر یہ ہے کہ دودھ نہ دوہیا جائے، اور اگر ابھی کافی وقت ہو اور دودھ نہ دوہنے کی صورت میں جانور کو تکلیف ہو اس وجہ سے دودھ نکال لیا گیا یا کسی نے لاعلمی میں دودھ دوہ لیا تو اسے صدقہ کردے ، اوراگردودھ نکال کراستعمال کرلیا تواب اس کی قیمت کاصدقہ کرناواجب ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے :
والجواب على نحو ما ذكرنا فيما تقدم أن المشتراة للأضحية متعينة للقربة إلى أن يقام غيرها مقامها فلا يحل الانتفاع بها ما دامت متعينة ولهذا لا يحل له لحمها إذا ذبحها قبل وقتها، فإن كان في ضرعها لبن - وهو يخاف عليها إن لم يحلبها - نضح ضرعها بالماء البارد حتى يتقلص اللبن لأنه لا سبيل إلى الحلب ولا وجه لإبقائها كذلك لأنه يخاف عليها الهلاك فيتضرر به فتعين نضح الضرع بالماء البارد لينقطع اللبن فيندفع الضرر فإن حلب تصدق باللبن لأنه جزء من شاة متعينة للقربة ما أقيمت فيها القربة فكان الواجب هو التصدق به، كما لو ذبحت قبل الوقت فعليه أن يتصدق بمثله لأنه من ذوات الأمثال، وإن تصدق بقيمته جاز لأن القيمة تقوم مقام العين، وكذلك الجواب في الصوف والشعر والوبر.(۵ / ۷۸، دار الکتب العلمیۃ) فقط واللہ اعلم
مزید تفصیل کے لیے یہ لنک بھی دیکھ لیں
فتوی نمبر : 144112200318
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن