قربانی کا گوشت عموماً تین حصے کیا جاتا ہے، جس میں اقربا کو بھی گوشت بھیجا جاتا ہے، اور ان اقربا کی اکثریت نے خود بھی قربانی کی ہوتی ہے، اور وہ ایک دوسرے کے گھر گوشت بھجوا رہے ہوتے ہیں، گویا گوشت کا تبادلہ ہو رہا ہوتا ہے، ہمارے ہاں یہ بھی ایک رسم ہے کہ بھائی اپنی بہنوں کے گھر گوشت بھجواتے ہیں، حالاں کہ انہوں نے خود بھی قربانی کی ہوتی ہے، کیا قربانی کا یہ طریقہ درست ہے؟
قربانی کے موقع پر ایک تہائی گوشت قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کرنا محض رسم نہیں بلکہ شرعاً اس کی ترغیب دی گئی ہے، لہذا قریبی رشتہ دار نے چاہے قربانی کی ہو یا نہ کی ہو بہرصورت اسے کچھ نہ کچھ قربانی کا گوشت دینا مستحب ہے یعنی ثواب کا باعث ہے، نیز یہ امر بھی واضح رہے کہ اگر کوئی شخص اپنا کنبہ بڑا ہونے اور ضرورت مند ہونے کی وجہ سے سارا گوشت خود رکھ لے تب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"والأفضل أن يتصدق بالثلث ويتخذ الثلث ضيافة لأقاربه وأصدقائه ويدخر الثلث لقوله تعالى {فكلوا منها وأطعموا القانع والمعتر} [الحج: 36] وقوله - عز شأنه - {فكلوا منها وأطعموا البائس الفقير} [الحج: 28] وقول النبي عليه الصلاة والسلام «كنت نهيتكم عن لحوم الأضاحي فكلوا منها وادخروا» فثبت بمجموع الكتاب العزيز والسنة أن المستحب ما قلنا ولأنه يوم ضيافة الله عز وجل بلحوم القرابين فيندب إشراك الكل فيها ويطعم الفقير والغني جميعا لكون الكل أضياف الله تعالى - عز شأنه - في هذه الأيام وله أن يهبه منهما جميعا، ولو تصدق بالكل جاز ولو حبس الكل لنفسه جاز؛ لأن القربة في الإراقة."
(كتاب التضحية، فصل في بيان ما يستحب قبل التضحية وبعدها وما يكره، ج: 5، ص: 81، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ويستحب أن يأكل من أضحيته ويطعم منها غيره، والأفضل أن يتصدق بالثلث ويتخذ الثلث ضيافة لأقاربه وأصدقائه، ويدخر الثلث، ويطعم الغني والفقير جميعا، كذا في البدائع."
(كتاب الأضحية، الباب الخامس في بيان محل إقامة الواجب، ج: 5، ص: 300، ط: دار الفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144608100439
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن