بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کا ثواب ایصال کرنا


سوال

قربانی کے ذریعے مرحومین کو ایصالِ ثواب درست اور صحیح ہے؟  اس کی کوئی دلیل حدیث سے ثابت ہو تو ازراہِ کرم ارسال کریں !

جواب

قربانی کر کے اس کا ثواب مرحومین کو پہنچانا   جائز بلکہ بہتر ہے، بلکہ کسی بھی نیک کام کا اجر تمام امتِ محمدیہ ﷺ کو پہنچانا درست ہے، خود نبی اکرم ﷺ نے بھی اپنی امت کی طرف سے قربانی فرمائی تھی، اس لیے وفا کا تقاضا ہے کہ استطاعت ہو تو ایک قربانی نبی کریم ﷺ کی طرف سے بھی کی جائے۔ نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے، کسی نے سوال کیا تو فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس کا حکم دیا تھا، لہٰذا میں اسے کبھی نہیں چھوڑوں گا۔

سنن الترمذی میں ہے:

"حدثنا محمد بن عبيد المحاربي الكوفي قال: حدثنا شريك، عن أبي الحسناء، عن الحكم، عن حنش، عن علي، أنه كان يضحي بكبشين أحدهما عن النبي صلى الله عليه وسلم، والآخر عن نفسه، فقيل له: فقال: «أمرني به» - يعني النبي صلى الله عليه وسلم - فلا أدعه أبدًا: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث شريك وقد رخص بعض أهل العلم أن يضحى عن الميت ولم ير بعضهم أن يضحى عنه وقال عبد الله بن المبارك: «أحب إلي أن يتصدق عنه، ولا يضحى عنه، وإن ضحى، فلا يأكل منها شيئا، ويتصدق بها كلها» قال محمد: قال علي بن المديني: وقد رواه غير شريك، قلت له: أبو الحسناء ما اسمه فلم يعرفه قال: مسلم اسمه الحسن."

(باب ما جاء في الأضحية عن الميت، ج:4، ص:84، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 326):

"و قد صح «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين: أحدهما عن نفسه والآخر عمن لم يذبح من أمته»، وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 595):

"الأصل أن كل من أتى بعبادة ما،  له جعل ثوابها لغيره وإن نواها عند الفعل لنفسه؛ لظاهر الأدلة. وأما قوله تعالى :﴿ وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى﴾ [النجم: 39] أي إلا إذا وهبه له، كما حققه الكمال، أو اللام بمعنى على كما في : ﴿وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ﴾ [غافر: 52]، ولقد أفصح الزاهدي عن اعتزاله هنا والله الموفق.

(قوله: بعبادة ما) أي سواء كانت صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءةً أو ذكراً أو طوافاً أو حجاً أو عمرةً، أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة والسلام، والشهداء والأولياء والصالحين، وتكفين الموتى، وجميع أنواع البر، كما في الهندية، ط۔ وقدمنا في الزكاة عن التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلاً أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات؛ لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء.'' اهـ.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201160

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں