بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کا نصاب اور قضا کاحکم


سوال

 قربانی کے نصاب میں مال مویشی بھی شامل ہوتے ہیں ؟ سائمہ اور غیر سائمہ ضروری اور شوقیہ وغیرہ سب کی وضاحت فرما دیں کہ مثلا ایک شخص کے پاس اضافی تیس ہزار ہے دو جانور بھی ہیں تو کیا قربانی کے نصاب میں ان جانوروں کی قیمت شمار ہوگی؟قربانی کی قضا ہو سکتی ہے یا صرف توبہ واجب ہے؟

جدید مسائل خصوصاً خرید و فروخت کے مسائل پر کسی اچھی کتاب کی طرف راہنمائی فرما دیں فرض علوم کون سے ہیں جن کا سیکھنا ہر مسلمان پر لازم ہے تھوڑی تفصیل سے وضاحت فرما دیں یا کسی کتاب کی طرف رہبری فرمائیں۔

جواب

قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں ذمہ میں  واجب الادا اخراجات منہا کرنے کے بعد ضرورت سےزائد اتنا مال یا سامان  موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زائد ہو (خواہ ضرورت سے زائد مال نقدی ہو یا سونا چاندی ہو یا کسی اور شکل میں ہو، اسی طرح مالِ تجارت نہ بھی ہو) تو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے، لہٰذا اگر کسی کے پاس تیس ہزار روپے ہوں اور دوجانور(سائمہ یا غیر سائمہ) ضرورت کےلیے ہیں تو ایسے شخص پر قربانی واجب  نہیں ہوگی، اور اگر اس شخص کے پاس تیس ہزار روپے اوردوجانور چاہے سائمہ ہو یاغیر سائمہ ضرورت سے زائد ہوں تو قربانی واجب ہوگی۔

اگرقربانی کے ایام گزرجائیں اورصاحب نصاب شخص نے قربانی ہی نہ کی تواب قربانی کی قضا تونہیں ہوتی، البتہ اس صورت میں ایک متوسط بکرا یا بکری یا اس کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے،بعض کے نزدیک قربانی کے ایک حصے کے برابررقم صدقہ کرنا کافی ہے۔

ہر مسلمان پر  اتنا علم حاصل کرنا کہ جس سے وہ فرائض ادا کرسکے اور  اسے حلال،حرام چیزوں کا علم ہوجائے کہ کون سی چیز جائز ہے اور کون سی چیز ناجائز ہے؛ تا کہ حرام چیزوں سے بچ سکے اور اسلام کی بنیادی ضروری باتیں معلوم کرلے، یہ فرضِ عین ہے، اور باقی علوم کی تفصیلات،  قرآن و حدیث کے تمام معارف و مسائل،  پھر ان سے نکالے ہوئے اَحکام و شرائع کی پوری تفصیل یہ نہ  ہر مسلمان کی قدرت میں ہے، نہ ہر ایک پر فرضِ عین ہے، البتہ پورے عالمِ اسلام کے ذمہ فرضِ کفایہ ہے، ہر شہر میں ایک عالم ان تمام علوم و شرائع کا ماہر موجود ہو تو باقی مسلمان اس فرض سے سبک دوش ہوجاتے ہیں، اور جس شہر یا قصبہ میں ایک بھی عالم نہ ہو تو شہر والوں پر فرض ہے کہ اپنے میں سے کسی کو عالم بنائیں، یا باہر سے کسی عالم کو بلا کر اپنے شہر میں رکھیں؛ تاکہ ضرورت پیش آنے پر باریک مسائل کو اس عالم سے فتوٰی لے کر سمجھ سکیں، اور عمل کرسکیں۔

جدید مسائل خریدوفروخت کےلیے ( محترم جناب مفتی محمد انعام الحق قاسمی صاحب کی کتاب )"تجارت کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا"دیکھ لی جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان".

(كتاب الزكوٰٰة،الباب الثامن في صدقة الفطر،ج:1،ص:191،ط:رشيديه)

 الدرالمختار مع الردالمحتار میں ہے:

 "(ولو) (تركت التضحية ومضت أيامها) (تصدق بها حية)

قوله ومضت أيامها إلخ) قيد به لما في النهاية: إذا وجبت بإيجابه صريحا أو بالشراء لها، فإن تصدق بعينها في أيامها فعليه مثلها مكانها، لأن الواجب عليه الإراقة وإنما ينتقل إلى الصدقة إذا وقع اليأس عن التضحية بمضي أيامها، وإن لم يشتر مثلها حتى مضت أيامها تصدق بقيمتها."

(كتاب الأضحية،ج:6،ص:320،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408100002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں