بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو الحجة 1446ھ 05 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

قربانی کا نصاب


سوال

عرض ہے کہ میرے پاس ڈھائی تولے سونا ہے اس کے علاوہ 80 ہزار کے قریب رقم ہے۔ میرے شوہر کی ماہانہ بیس ہزار تنخواہ ہے اور میں ایک سکول ٹیچر ہوں میری بھی 18 ہزار تنخواہ ہے میرا ایک بچہ سکول پڑھتا ہے جس کے سارے لوازمات میرے اوپر ہیں شوہر کی تنخواہ نہ ہونے کی وجہ سے سسرال والے ہمیں راشن دیتے ہیں ۔باقی خرچ ہمارا ہوتا ہے رہنمائی فرمائیں کہ میرے اوپر زکوۃ اور قربانی ہوگی یا نہیں اور یہ پیسے میں نے بچوں کے لیے رکھے ہوئے ہیں کیونکہ کوئی ایمرجنسی پڑنے کی ضرورت میں مجھے خرچ کی ضرورت پڑ جائے تو اور کوئی ذریعہ نہیں۔

جواب

قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو،  یا تجارت کا سامان، یا ضرورت  اور استعمال سےزائد اتنا سامان  موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے  بعض یا سب کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر  ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔صورت مسؤلہ میں چونکہ رقم 80 ہزار ہے   اور ڈھائی تولہ سونا بھی ہے  جو کہ مجموعی طور پر  نصاب  سے زیادہ  ہے اس لئے آپ پر  قربانی  تو بہر حال واجب  ہے  اور  زکوۃاس وقت لازم ہوگی  جب صاحب نصاب بنے ہوئے سال گزر گیا ہو۔

فتاوى هندية میں ہے:

"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان".

  (کتاب الاضحیۃ1/ 191 رشیدیہ )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611101249

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں