بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کا جانور بچہ جنے تو اس کا کیا حکم ہے؟


سوال

ہم قربانی کا جانور  بچھیا لائے  اور اس نے قربانی سے چار دن پہلے بچا جنم دیا ہے، اب اس جانور  کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں قربانی کے جانور نے قربانی سے پہلے بچہ جنا تو  اس جانور کو ذبح کرنا جائز ہے اور بچہ کو بھی اس کی ماں کے ساتھ ذبح کردیا جائے یا اس کو صدقہ کردیا جائے اور بچہ کو  زندہ صدقہ کردینا زیادہ بہتر ہے، اگر بچہ کو  ذبح کرلیا تو  اس کا گوشت  یا اس کی قیمت صدقہ کردی جائے، اور  اگر  قربانی کے ایام نکل گئے اور اس بچہ کو ذبح نہیں کیا تو اب اس کو زندہ صدقہ کردینا ضروری ہے۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 322):
"ولدت الأضحية ولدًا قبل الذبح يذبح الولد معها.

(قوله: قبل الذبح) فإن خرج من بطنها حيًّا فالعامة أنه يفعل به ما يفعل بالأم،  فإن لم يذبحه حتى مضت أيام النحر يتصدق به حيًّا، فإن ضاع أو ذبحه وأكله يتصدق بقيمته، فإن بقي عنده وذبحه للعام القابل أضحية لايجوز،  وعليه أخرى لعامه الذي ضحى ويتصدق به مذبوحًا مع قيمة ما نقص بالذبح، والفتوى على هذا خانية (قوله: يذبح الولد معها) إلا أنه لايأكل منه بل يتصدق به فإن أكل منه تصدق بقيمة ما أكل. والمستحب أن يتصدق به خانية، قيل ولعل وجهه عدم بلوغ الولد سن الإجزاء فكانت القربة في اللحم بذاته لا في إراقة دمه اهـ تأمل. قال في البدائع: وقال في الأصل: وإن باعه تصدق بثمنه لأن الأم تعينت للأضحية والولد يحدث على صفات الأم الشرعية. ومن المشايخ من قال هذا في الأضحية الموجبة بالنذر أو ما في معناه كشراء الفقير وإلا فلا، لأنه يجوز التضحية بغيرها فكذا ولدها (قوله: وعند بعضهم يتصدق به بلا ذبح) قدمنا عن الخانية أنه المستحب، وظاهره ولو في أيام النحر، وانظر ما في الشرنبلالية عن البدائع۔ فقط واللہ اعلم
 


فتوی نمبر : 144112200682

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں