بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کا جانور متعین کرنے کے بعد دوسرے جانور کی قربانی کرنے کا حکم


سوال

قربانی کےجانور کو پہلے متعین کرنے کے بعد  پھر چند دن کے  بعد دوسرے جانور کی قربانی کرنے کا کیا حکم ہے ؟

جواب

قربانی کا جانور متعین کرنے کے بعد اسے تبدیل کرنا مناسب نہیں ہے، تاہم اگر صاحبِ نصاب شخص قربانی کا متعین شدہ جانور تبدیل کرکے دوسرے جانور کی قربانی کرے تو قربانی درست ہوجائے گی، البتہ دوسرا جانور خریدتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ وہ پہلے جانور سے کم قیمت والا نہ ہو، اگر دوسرا جانور پہلے کی قیمت سے کم قیمت میں خرید لیا تو دونوں جانوروں کی قیمت کے فرق کے بقدر رقم صدقہ کرنی پڑے  گی۔

اور اگر کوئی شخص صاحبِ نصاب نہ ہو اور وہ کسی مخصوص جانور کو قربانی کی نیت سے خرید لے تو اس پر اسی  متعین جانور کی قربانی کرنا واجب ہے، بلکہ اگر پہلا جانور عیب دار ہونے یا بیمار ہونے کی وجہ سے قربانی کے قابل نہ رہے تب بھی غریب شخص پر اسی جانور کی قربانی کرنا لازم ہوگا،اس کے لیے کسی بھی صورت میں پہلے جانور کو چھوڑ کر یا بیچ کر اس کی جگہ دوسرے جانور کی قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية (5/ 294):

’’ رجل اشترى شاة للأضحية وأوجبها بلسانه، ثم اشترى أخرى جاز له بيع الأولى في قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى -، وإن كانت الثانية شرا من الأولى وذبح الثانية فإنه يتصدق بفضل ما بين القيمتين؛ لأنه لما أوجب الأولى بلسانه فقد جعل مقدار مالية الأولى لله تعالى فلا يكون له أن يستفضل لنفسه شيئا، ولهذا يلزمه التصدق بالفضل قال بعض مشايخنا: هذا إذا كان الرجل فقيرا فإن كان غنيا فليس عليه أن يتصدق بفضل القيمة، قال الإمام شمس الأئمة السرخسي الصحيح أن الجواب فيهما على السواء يلزمه التصدق بالفضل غنيا كان أو فقيرا؛ لأن الأضحية وإن كانت واجبة على الغني في الذمة فإنما يتعين المحل بتعيينه فتعين هذا المحل بقدر المالية لأن التعيين يفيد في ذلك.‘‘

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 325):

’’ (ولو) (اشتراها سليمة ثم تعيبت بعيب مانع) كما مر (فعليه إقامة غيرها مقامها إن) كان (غنيا، وإن) كان (فقيرا أجزأه ذلك) وكذا لو كانت معيبة وقت الشراء لعدم وجوبها عليه بخلاف الغني، ولا يضر تعيبها من اضطرابها عند الذبح وكذا لو ماتت فعلى الغني غيرها لا الفقير.

 (قوله: وإن فقيرا أجزأه ذلك) لأنها إنما تعينت بالشراء في حقه، حتى لو أوجب أضحية على نفسه بغير عينها فاشترى صحيحة ثم تعيبت عنده فضحى بها لايسقط عنه الواجب لوجوب الكاملة عليه كالموسر زيلعي ... (قوله: فعلى الغني غيرها لا الفقير) أي ولو كانت الميتة منذورة بعينها لما في البدائع أن المنذورة لو هلكت أو ضاعت تسقط التضحية بسبب النذر، غير أنه إن كان موسرا تلزمه أخرى بإيجاب الشرع ابتداء لا بالنذر، ولو معسرا لا شيء عليه أصلًا.‘‘

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 329):

"ومنهم من أجازهما للغني لوجوبهما في الذمة فلاتتعين، زيلعي.

(قوله: لوجوبها في الذمة فلاتتعين) والجواب أن المشتراة للأضحية متعينة للقربة إلى أن يقام غيرها مقامها فلايحل له الانتفاع بها ما دامت متعينة ولهذا لايحل له لحمها إذا ذبحها قبل وقتها، بدائع، ويأتي قريبًا أنه يكره أن يبدل بها غيرها فيفيد التعين أيضًا، وبه اندفع ما مر عن المنح، فتدبر."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200919

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں