بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کا جانور مر جائے تو قرض دار کے لیے قربانی کا حکم


سوال

میں نے قربانی کے لیے جانور  خریدا، جب میں جانور گھر کے پاس لایا تو وہ ٹھیک ٹھاک تھا، کچھ دیر بعد اس جانور کی طبیعت نا ساز ہوگئی،  میں  نے ڈاکٹر کو بلا یا جب ڈاکٹر نے  علاج کیا، تھوڑی  دیر بعد جانور کی طبیعت بہت خراب ہوگئی، ہم نے اس کو ذبح کر دیا، جس نے ذبح کیا وہ شک میں پڑ گیا کہ یہ جانور جاں بحق ہوگیا تو اس کا گوشت ہم نے ضائع کر دیا۔ اب میرے اوپر تقریبًا آٹھ لاکھ روپے کا قرضہ ہے تو کیا مجھے دوسری قربانی کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر  سائل  مال دار ہے یعنی قرضہ  منہا کرنے  کے بعد اس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر رقم موجود ہے، چاہے نقدی کی صورت میں ہو یا سونے، چاندی کے زیورات یا  تجارتی سامان یا ضرورت و استعمال  سے زائد  سامان کی شکل میں ہو اور ان سب کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد ہو تو سائل پر ایک پورا چھوٹا جانور (بکرا، دنبہ) یا بڑے جانور (گائے، بھینس، اونٹ)  کا ایک حصہ قربان کرنا ضروری ہے۔ اگر پورا جانور یا حصہ خریدنے کے لیے نقد رقم موجود نہ ہو تو سامان بیچ کر یا قرضہ لے کر قربانی کرنا ضروری ہے۔

لیکن اگر  قرضہ منہا کرنے کے بعد سائل کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر رقم  بھی موجود نہیں اور کسی بھی قسم کا ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود نہیں  جس کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو  اس پر قربانی کے لیے دوسرا جانور خریدنا یا ایک حصہ قربان کرنا لازم نہیں ہے، لیکن اگر قربانی کردی تو جائز ہے۔

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (ج:6، ص:325، ط:دار الفكر-بيروت):

’’(ولو) (اشتراها سليمة ثم تعيبت بعيب مانع) كما مر (فعليه إقامة غيرها مقامها إن) كان (غنيا، وإن) كان (فقيرا أجزأه ذلك) وكذا لو كانت معيبة وقت الشراء لعدم وجوبها عليه بخلاف الغني، ولا يضر تعيبها من اضطرابها عند الذبح وكذا لو ماتت فعلى الغني غيرها لا الفقير.‘‘

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144212200761

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں