بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کا جانور خریدنے کے وقت حصے داروں کو متعین کیا بعد میں تبدیل کرنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں  اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص قربانی کا جانور خریدنے کے  لیے اپنے دوسرے شریک کو کہتا ہے  کہ آپ جانور  دیکھ کر خرید لیں، اس کا شریک پھر جانور خرید لیتا ہے،بعد میں شریک اول اس جانور کی قیمت زیادہ ہے کہہ کر اس جانور کی قربانی کرنے سے انکار کرتا ہے ،اور کہتا ہے میں آپ کے ساتھ شریک ہوکر قربانی نہیں کرتا،  حال آں کہ وہ  چار حصے سے اس کے ساتھ شریک تھا ۔اب دریافت طلب یہ ہے کہ  اس آدمی پر اسی جانور کی قربانی کرنا واجب ہے یا کسی دوسرے جانور کی قربانی کر سکتا ہے؟ اور یہ جانور کا عقد قربانی کے ایام سے ایک ماہ پہلے ہوا ہے اور شریک اول کے چار حصوں  میں ایک واجب اور  3 نفلی قربانی ہیں۔

جواب

وضح رہے کہ قربانی کے جانور میں اگر کوئی ایسا شخص شریک تھا جس پر قربانی واجب تھی ، اور وہ پھر ذبح سے پہلے شرکت سے علیحدہ ہوگیا اور دوسرا آدمی اس کی جگہ شریک ہوگیا تو قربانی ہوجائے گی ،اور اگر کوئی ایسا شخص شریک تھا جس پر قربانی واجب نہ تھی تو اس کے لیے اس جانور کی قربانی متعین ہوگئی تھی، اب اگر وہ جانور   ذبح کرنے سے   پہلے  شرکت سے علیحدہ ہوگیا تو اس پر اسی حصے کی  قربانی واجب رہ جائے گی ،اور اس کے الگ ہونے کی وجہ سے دوسرے شرکاء کی قربانی بھی درست نہ ہوگی، جب تک اسی آدمی کو دوبارہ شریک نہ کریں ،لہذا صورتِ  مسئولہ میں  چوں کہ سائل نے جس آدمی کو شریک کیا تھا اس کے اوپر قربانی واجب تھی؛ اس لیے  اگر وہ الگ ہوگیا ہے تب بھی دوسرےشخص کے لئے اس جانور کی قربانی درست ہے، نیز اس جانور کی تبدیلی کے بارے میں  تفصیل یہ ہے کےدوسرا جانور  پہلے جانور  سے کم قیمت کا نہ ہو ، اور اگر دوسرا جانور پہلے جانور سے کم قیمت پر خریدلیا تو پہلے اور دوسرے جانور  کی قیمت میں جتنا فرق ہے اس کو صدقہ کردیا جائے ۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

''والتقدير بالسبع ‌يمنع ‌الزيادة، ولا يمنع النقصان، كذا في الخلاصة،لا يشارك المضحي فيما يحتمل الشركة من لا يريد القربة رأسا، فإن شارك لم يجز عن الأضحية، وكذا هذا في سائر القرب إذا شارك المتقرب من لا يريد القربة لم تجز عن القربة.''

(كتاب الضحايا،الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا.ج:5،ص:304،ط:دار الفكر بيروت)

و فيه أيضاً:

''ولو ‌اشترى ‌بقرة يريد أن يضحي بها، ثم أشرك فيها ستة يكره ويجزيهم؛ لأنه بمنزلة سبع شياه حكما، إلا أن يريد حين اشتراها أن يشركهم فيها فلا يكره، وإن فعل ذلك قبل أن يشتريها كان أحسن.''

(كتاب الضحايا،الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا.ج:5،ص:304،ط:دار الفكر بيروت)

و فيه أيضاً:

''رجل اشترى شاة للأضحية وأوجبها بلسانه، ثم اشترى أخرى جاز له بيع الأولى في قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى -، وإن كانت الثانية شرا من الأولى وذبح الثانية فإنه يتصدق بفضل ما بين القيمتين؛ لأنه لما أوجب الأولى بلسانه فقد جعل مقدار مالية الأولى لله تعالى فلا يكون له أن يستفضل لنفسه شيئا، ولهذا يلزمه التصدق بالفضل.''

(كتاب الضحايا،الباب الثاني في وجوب الأضحية بالنذر وما هو في معناه،ج:5،ص294،ط:دار الفكر بيروت)

کفایت المفتی میں ہے:

"(سوال) قربانی میں شریک ہو کر پھر قربانی سے ایک روز پہلے حصہ چھوڑ نے پر قربانی واجب سنت کچھ اس کے ذمے باقی ہےیا نہیں؟

(جواب249)  قربانی کی گائے میں  اگر کوئی ایسا شخص شریک تھا جس پر قربانی  واجب تھی اور پھر ذبح سے پہلے شرکت  سے علیحدہ ہو گیا اور دوسرا آدمی اس کی جگہ شریک ہوگیا تو قربانی ہو جائےگی ، اور جس پر قربانی واجب نہ تھی وہ اگر ذبح کرنے سے پہلے علیحدہ ہو جائے تو اس پر قربانی واجب رہے گی، اور اس جانور کے دوسرے شرکاء کی قربانی بھی درست نہ ہوگی جب تک وہ اسی کو شریک کر کے قربانی نہ کریں۔"

(کتام الاضحیۃ و الذبیحۃ،  جانور ذبح کرنے سے پہلے کسی شریک کے علیحدہ ہونے کا حکم،ج:8،ص:191، 192،ط:دار الاشاعت)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100336

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں