بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کا جانور گاؤں بھیجنا


سوال

اگر کوئی شخص شہر سے قربانی گاؤں میں بھیجے تاکہ بروقت میرے لئے ذبح ہوسکے ۔تو کیا یہ بھیجنا درست ہے جبکہ شہر اور گاؤں کے درمیان مسافت قصر نہ ہو کیونکہ عالمگیریہ میں یہ قیدِ قصر نظر سے گزری ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں شہر میں رہنے والےکے لیے قربانی کا جانور گاؤں بھیجنا جائز ہے  البتہ اگر گاؤں ایسا ہے جہاں عید کی نماز نہیں ہوتی تو وہاں صبح صادق کے بعد قربانی کرنا جائز ہوگا اور اگر اس گاؤں میں عید کی نماز ہوتی ہے تو وہاں عید کی نماز سے قبل قربانی کرنا جائز نہیں ہوگا۔باقی عالمگیری میں جو قصر کی قید ہے وہ قربانی بھیجنے کے جواز اور عدم کے متعلق نہیں ہے بلکہ قربانی کے وقت کے متعلق ہے ۔درج ذیل حوالہ ملاحظہ کیجیے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو أخرج الأضحية من المصر فذبح قبل صلاة العيد قالوا: إن خرج من المصر مقدار ما يباح للمسافر قصر الصلاة في ذلك المكان جاز الذبح قبل صلاة العيد وإلا فلا، كذا في خزانة المفتين."

(کتا ب الاضحیة ، الباب الرابع فیما یتعلق بالمکان و الزمان جلد ۵ ص : ۲۹۶ ط : دارالفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وهكذا روى الحسن عن أبي يوسف - رحمه الله -: يعتبر المكان الذي يكون فيه الذبح ولا يعتبر المكان الذي يكون فيه المذبوح عنه، وإنما كان كذلك؛ لأن الذبح هو القربة فيعتبر مكان فعلها لا مكان المفعول عنه."

(کتاب التضحیة ، فصل فی محل اقامة الواجب فی الاضحیة جلد ۵ ص : ۷۴ ط : دارالکتب العلمیة)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144311102066

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں