بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کا گوشت غریبوں میں تقسیم نہ کرنے کا حکم


سوال

اگر قربانی کرتے ہیں اور غریبوں کا حصہ آج کے حالات میں نہیں تقسیم کر پائے تو اس پر حدیث کے دائرہ میں کیا صورت بنتی ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص عیال دار ہو اور صاحب وسعت نہ ہو تو اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ قربانی کا گوشت تقسیم نہ کرے بلکہ اپنے گھر والوں کے لیے رکھےاور انہی پر خرچ کرے۔ البتہ مال دار اور صاحب وسعت شخص کے لیے بہتر یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرکے؛ ایک حصہ صدقہ میں دے، ایک حصہ رشتہ داروں اور دوست احباب میں بانٹ دے یا دعوت میں کھلا دے اور ایک حصہ اپنے کھانے کے لیے محفوظ رکھے۔ اور اگر کوئی سارا گوشت صدقہ کردے یا سارا اپنے پاس رکھ لے تو یہ بھی جائز ہے۔  لہٰذا اپنے حالات کو دیکھتے ہوئے اگر کوئی شخص غریبوں میں گوشت تقسیم نہ کرے تو شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔

بخاری شریف میں ہے:

"عن سلمة بن الأكوع، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «من ضحى منكم فلا يصبحن بعد ثالثة وبقي في بيته منه شيء» فلما كان العام المقبل، قالوا: يا رسول الله، نفعل كما فعلنا عام الماضي؟ قال: «كلوا وأطعموا وادخروا، فإن ذلك العام كان بالناس جهد، فأردت أن تعينوا فيها»" (باب ما يؤكل من لحوم الأضاحي وما يتزود منها، ج:7، ص:103، ط:دار طوق النجاة)

ترجمہ: حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جو شخص قربانی کرے تو تیسرے دن کے بعد اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ نہ رہناچا ہیے‘‘۔ پھر جب اگلا سال آیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! کیا اس سال بھی ہم گزشتہ سال کی طرح عمل کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’خود بھی کھاؤ، اوروں کو بھی کھلاؤ اور محفوظ بھی کرو، اس لیے کہ پچھلے سال لوگ محتاج اور ضرورت مند تھے تو میں نے چاہا کہ تم ان کی اعانت کرو‘‘۔

عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں ہے:

"قوله: (فلا يصبحن من الإصباح) ، قوله: (بعد ثالثة) ، أي: ليلة ثالثة من وقت التضحية. قوله: (وفي بيته) ، الواو فيه للحال. قوله: (وادخروا) بالدال المهملة المشددة لأن أصلها اذتخروا من ذخر بالذال المعجمة اجتمع مع تاء الافتعال وقلبت التاء دالا فصار إذ دخروا. ثم قلبت الذال دالا وأدغمت الدال في الذال فصار: ادخروا. قوله: (جهد) ، أي: مشتقة يقال: جهد عيشهم أي: نكد واشتد وبلغ غاية المشقة ففي الحديث دلالة على أن تحريم ادخار لحم الأضاحي كان لعلة، فلما زالت العلة زال التحريم". (باب ما يؤكل من لحوم الأضاحي وما يتزود منها، ج:21، ص:159، ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ويستحب أن يأكل من أضحيته ويطعم منها غيره، والأفضل أن يتصدق بالثلث ويتخذ الثلث ضيافة لأقاربه وأصدقائه، ويدخر الثلث، ويطعم الغني والفقير جميعا، كذا في البدائع. ويهب منها ما شاء للغني والفقير والمسلم والذمي، كذا في الغياثية. ولو تصدق بالكل جاز، ولو حبس الكل لنفسه جاز، وله أن يدخر الكل لنفسه فوق ثلاثة أيام إلا أن إطعامها والتصدق بها أفضل إلا أن يكون الرجل ذا عيال وغير موسع الحال فإن الأفضل له حينئذ أن يدعه لعياله ويوسع عليهم به، كذا في البدائع". (كتاب الأضحية، ج:5، ص:300، ط:دار الفكر)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200408

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں