بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کا ایک حصہ تمام صحابہ کی طرف سے کرنے کا حکم


سوال

زید نے ایک بڑا جانور خریدا،  اس میں  5  حصے اپنے گھر کے 5 افراد کے  لیے رکھے، ایک حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے  لیے اور بچا ہوا ایک حصہ جمیع صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف سے قربانی کرنا چاہتا  ہے،  کیا صرف ایک حصہ میں تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف سے قربانی ہوجائےگی؟ یا اس ایک حصہ میں ایک ہی صحابی رضی اللہ عنہ کے نام سے ہوگی ؟ یعنی کہ زید بچے ہوئےایک حصہ میں جمیع صحابہ رضی اللہ عنہم کو شریک کر رہا ہے  اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی مجموعی تعداد ایک  لاکھ  سے زائد  ہے  تو اس ایک ہی حصہ میں ایک لاکھ سے زائد شریک ہو رہے ہیں، جب کہ بڑے جانور میں صرف سات ہی حصے ہوتے ہیں وہ بچے ہوئے ایک حصے میں صرف تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف سےقربانی ہوگی؟ یا پھر زید وہ  ساتویں  حصے کو بھی اپنے کسی اہل خانہ کے نام کرے اور ثواب کی نیت سے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شامل کرے تب صحیح ہوگی؟ شرعی نقطہ نظر سے کیا طریقہ کار ہوگا تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے قربانی کرنے کا واضح فرمائیں۔

جواب

حدیث  شریف میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مینڈھا اپنی طرف سے قربان فرمایا اور دوسرا مینڈھا قربان کر کے فرمایا : ’’ هذا عن من لم یضح من أمتي ‘‘  یعنی میں یہ قربانی اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے کر رہا ہوں جو قربانی نہ کرسکیں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مینڈھے کا ثواب پوری امت کے اُن لوگوں کو پہنچا دیا جو لوگ قربانی نہ کر سکتے ہوں۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک چھوٹا جانور یا  بڑے جانور کا ایک حصہ کئی لوگ کے ایصالِ ثواب کے لیے کافی ہے، لہذا اگر آپ بڑے جانور کے  ایک حصہ میں  تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایصالِ ثواب کی نیت  کرتے ہیں تو یہ طریقہ درست ہے۔

  باقی جو یہ کہا جاتا ہے کہ ایک حصے میں کئی افراد شریک نہیں ہو سکتے، بلکہ ایک حصہ ایک فرد ہی  کی طرف سے ہو سکتا ہے، ایک  سے زائد افراد   کی طرف سے نہیں ہو سکتا  تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ  ایک حصے سے ایک فرد ہی  کی قربانی  ساقط ہو گی،ایک حصہ کئی افراد  کی قربانی  کے حکم کو پورا کرنے اور قربانی کو  ساقط کرنے کے لیے کافی نہیں۔

سنن الترمذی میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله قال: شهدت مع النبي صلى الله عليه وسلم الأضحى بالمصلى، فلما قضى خطبته نزل عن منبره، فأتي بكبش، فذبحه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، وقال: «بسم الله، والله أكبر، هذا عني وعمن لم يضح من أمتي»".

سنن الترمذي ت شاكر (4/ 100)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201174

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں