بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کے وجوب کا نصاب


سوال

میں سرکاری ملازم ہوں، پوری ایمانداری سے اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتا ہوں، میری تنخواہ 52000 روپے ہے، میں شادی شدہ ہوں اور دو بچوں کا باپ ہوں جوا بھی سکول نہیں جاتے، بیوی گھریلو خاتون ہے جس کا دو تولے کے قریب سونا پڑا ہوا ہے، اس کے علاوہ گھر 5مرلہ کا مشترکہ اپنا ذاتی ہے، ہم مشترکہ فیملی ہیں جس میں میرے والد صاحب کا انتقال ہو چکا ہے، مزید والدہ ابھی حیات ہیں، دو بہنیں اور دو بھائی ہیں جن کی کفالت میرے ذمے ہے، ایک بھائی پڑھ رہا ہے، دوسرا بھائی نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھا ہے جس نے کچھ پیسے جوڑے ہیں ان سے اپنا کاروبار سٹارٹ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، ایک بہن پرائیویٹ اسکول میں پڑھا رہی ہے جس کی تنخواہ تقریبًا 12 ہزار روپے ہے، جب کہ دوسری بہن پڑھ رہی ہے، دیگر کوئی ذرائع آمدن نہیں ہیں۔

اب میرا سوال اور مسئلہ یہ ہے کہ مجھ پر یا میرے اہل خانہ پر قربانی لگتی ہے؟ پچھلے سال بھی قربانی کی تھی، مگر ادھار پکڑ کر؛ کیوں کہ مہینہ کے آخر میں پیسے ادھار پکڑنے پڑتے ہیں اور وہ بھی ادھار پکڑ کر کی تھی، پھر بعد میں آہستہ آہستہ کر کے ادھار اتار دیا تھا۔  برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں!

جواب

واضح رہے کہ قربانی ہر اس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جس کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض  اور بنیادی اخراجات کی رقم منہا کرنے بعد ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہو، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو، یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سے زائد اتنا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو۔ اسے قربانی واجب ہونے کا نصاب کہتے ہیں۔

قربانی واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال، رقم یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے مذکورہ نصاب کا مالک ہوجائے تو اس پر قربانی واجب ہے۔

ضرورت  سے زائد سامان سے مراد یہ ہے کہ وہ چیزیں انسان کے  استعمال میں  بالکل نہ ہوں۔ ہر انسان کی ضروریات اور حاجات عموماً دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں، اور راجح قول کے مطابق ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اشیاء کو جائز طریقہ سے اپنی ملکیت میں رکھنے کی کوئی خاص تعداد شریعت کی طرف سے مقرر نہیں ہے، بلکہ جو چیزیں انسان کے استعمال میں ہوں اور انسان کو اس کے استعمال کی حاجت پیش آتی ہو اور وہ اشیاء تجارت کے لیے نہ ہوں تو وہ ضرورت اور حاجت کے سامان میں داخل ہوں گی۔ اور جو چیزیں انسان کے استعمال میں نہ ہوں اور اس کو ان کی حاجت بھی نہ ہوتی ہو تو وہ ضرورت سے زائد سامان میں شامل ہوں گی، اور قربانی کے نصاب میں ان کی مالیت کو شامل کیا جائے گا۔

مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں اپنے گھر کا جائزہ لے لیجیے، آپ یا آپ کے اہل خانہ میں جو شخص بھی مذکورہ نصاب کا مالک ہو  اس پر قربانی واجب ہے۔ اور جو مذکورہ نصاب کا مالک نہیں اس پر قربانی واجب نہیں، البتہ اگر ایسا شخص بھی ثواب کی  لالچ میں قربانی کرے گا تو قربانی درست ہوجائے گی اور یہ قربانی نفلی کہلائے گی۔

جس شخص پر قربانی واجب نہیں، اس کے لیے قرضہ لے کر قربانی کرنا ضروری نہیں، البتہ اگر کسی نے ایسا کرلیا تو قربانی درست ہوجائے گی، لیکن جس شخص پر قربانی واجب ہے، مگر اس کے پاس نقد رقم موجود نہیں ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ سونا، چاندی یا قابلِ  فروخت  چیز  بیچ کر یا کسی سے قرضہ لے کر قربانی کرے۔

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:6، ص:312، ط: دار الفكر-بيروت):

’’وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)

(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم.‘‘

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144211201699

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں