بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کے جانوروں کی عمر کا ثبوت


سوال

 کیا قربانی  کے جانوروں کی عمریں حدیث میں بیان کی گئی ہیں ؟

جواب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے "مُسِنَّه"جانور کی قربانی کا حکم دیا ہے، عربی زبان میں بکری دنبہ  وغیرہ میں "مُسِنَّه"  اسے کہا جاتا ہے جس کی عمر ایک سال مکمل ہوچکی ہو، اور گائے، بیل ، بھینس وغیرہ میں "مُسِنَّه"اس جانور کو  کہا جاتا ہے، جو دو سال مکمل کرچکا ہے، جب کہ اونٹ میں "مُسِنَّه"اسے کہا جاتا ہے، جو پانچ سال مکمل کر چکا ہو، اسی طرح سے اگر بھیڑ  فربہ ہو  اور اس کی عمر  چھ  ماہ ہوچکی ہو تو اس کی قربانی کی بھی اجازت دی ہے، پس قربانی کے جانوروں کی کم سے کم عمر حدیث سے ثابت ہے، البتہ زائد  کی کوئی تحدید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں  فرمائی  ہے؛ لہٰذا زیادہ عمر کے جانور کی قربانی  جائز ہے، البتہ اگر  اس کے سارے یا اکثر دانت ٹوٹ جائیں جس کی وجہ سے وہ چارہ نہ کھاسکے، ایسی صورت میں عیب پیدا ہونے کی وجہ سے اسے  قربانی میں ذبح کرنا درست نہیں ہوگا۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"2797 - حدثنا أحمد بن أبي شعيب الحرانى، حدثنا زهير بن معاوية، حدثنا أبو الزبير عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لاتذبحوا إلا مسنة، إلا أن يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضأن."

( كتاب الاضاحي، باب ما يجوز من السن في الضحايا، 4 / 423،  ط: دار الرسالة العالمية)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے

1455 - (وعن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لاتذبحوا إلا مسنة) : وهي الكبيرة بالسن، فمن الإبل التي تمت لها خمس سنين ودخلت في السادسة، ومن البقر التي تمت لها سنتان ودخلت في الثالثة، ومن الضأن والمعز ما تمت لها سنة، كذا قاله ابن الملك. (إلا أن يعسر) أي: يصعب. (عليكم) أي: ذبحها، بأن لا تجدوها قاله ابن الملك. والظاهر أي: يعسر عليكم أداء ثمنها. قال ابن الملك: قوله: (إلا أن يعسر) بهذا قال بعض الفقهاء: الجذعة لا تجزئ في الأضحية إذا كان قادرا على مسنة، ومن قال بجوازه حمل الحديث على الاستحباب اهـ. وهو المعتمد في المذهب.

ويؤيده حديث «نعمت الأضحية الجذعة من الضأن» وروى أحمد وغيره: «ضحوا بالجذعة من الضأن فإنه جائز» . (فذبحوا جذعة) : بفتحتين. (من الضأن) : بالهمز ويبدل ويحرك خلاف المعز من الغنم، وهو ما يكون قبل السنة قاله ابن الملك، لكن يقيد بأنها تكون بنت ستة أشهر تشبه ما لها سنة لعظم جثتها. وفي النهاية: الجذع من أسنان الدواب، وهو ما يكون منها شابا فهو من الإبل ما دخل في المسنة، ومن البقر ما دخل في الثانية، ومن الضأن ما تمت له سنة، وقيل: أقل منها، وفي شرح السنة: اتفقوا على أنه لا يجوز من الإبل والبقر إلا الثني، وهو من الإبل ما استكمل خمس سنين، ومن البقر والمعز ما استكمل سنتين وطعن في الثالثة، وأما الجذع من الضأن فاختلفوا فيه، فذهب أكثر أهل العلم من الصحابة ومن بعدهم إلى جوازه، غير أن بعضهم يشترط أن يكون عظيما، وقال الزهري: لايجوز من الضأن إلا الثني فصاعدا كالإبل والبقر، والأول أصح لما ورد: «نعمت الأضحية الجذعة من الضأن» اهـ."

( كتاب الصلاة، باب في الأضحية، 3 / 1079، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200509

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں