بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کے جانور کے گم ہونے کی صورت میں صاحبِ نصاب پر قربانی کا حکم


سوال

ایک شخص نے قربانی کے لیے بکرا لیا اور وہ بکرا گم ہوگیا، آیا اب اس پر دوبارہ بکرے ہی کی قربانی ضروری ہے، یا کسی دوسرے جانور میں حصہ لیکر قربانی کر سکتا ہے ؟ واضح رہے کہ وہ شخص صاحبِ نصاب ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص جوکہ صاحب نصاب ہے اور اس نے قربانی کے لیے بکراخریدا تھاپھر وہ گم ہوگیاتواس گم شدہ بکرےکی جگہ دوسرے  بکرے کی  قربانی کرے یا  کسی دوسرے  جانور میں حصہ لے کر  قربانی کرلے، دونوں صورتوں کی شرعاً اجازت ہے۔

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"الفقير إذا اشترى أضحية فضلت فليس عليه أن يشتري مكانها أخرى ولو كان غنيا فعليه ذالك"

(كتاب الأضحية، الفصل الثاني في وجوب الأضحية بالنذر وماهوفي معناه، ج:١٧، ص:٤١٣، ط:مكتبة زكرياالهند)

شرح مختصر الطحاوی للجصاص میں ہے:

"قال أبو جعفر: (ومن ‌ضلت أضحيته: فإنه ينبغي له أن يبدل ‌مكانها أخرى)وذلك لأن الأضحية في ذمته، وإيجابه إياها لم يسقط ما في ذمته حتى يذبحها في أيام النحر، فإذا ضلَّت، بقي الحق الذي كان في ذمته."

(كتاب الضحايا، حكم من ضلت أضحيته، ج:٧، ص:٣٦١، ط:دار البشائر الإسلامية)

البحرائق میں ہے:

"الفقير إذا اشترى شاة للأضحية فسرقت فاشترى مكانها، ثم وجد الأولى فعليه أن يضحي بهما، ولو ‌ضلت فليس عليه أن يشتري أخرى مكانها، وإن كان غنيا فعليه أن يشتري أخرى مكانها."

(كتاب الأضحية، ج:٨، ص:١٩٩، ط:دار الكتاب الإسلامي)

احسن الفتاوی میں ہے:

"سوال:کسی نے قربانی کی غرض سے بکرا پالا یا خریدا اس کو تبدیل کرسکتا ہے یا نہیں ؟

جواب:بکراگھر کاپالتوہو یاخریدنے کے بعد قربانی کی نیت کی ہوتو اس کو بدلنا بہر حال جائز ہےاور قربانی کی نیت سے خریدا ہو تواس میں تین روایات ہیں:

(1)غنی اور فقیر دونوں کے لیے موجب نہیں لہذا دونوں کے لیے بدلنا جائز ہے۔(2)دونوں کے لیے موجب ہےغنی پر بقدر مالیت اور فقیر پر اسی جانور کی قربانی واجب ہے، اس روایت کے مطابق استبدال غنی میں اقوال مختلف ہیں اعدل الاقاویل یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دوسری اضحیہ ذبح کرنے کے بعد پہلی کا ترک بلاکراہت جائز ہے اس سے قبل تبدیل اولی مکروہ تنزیہی ہے دونوں صورتوں میں ادنی سے تبدیل کیا تو فضل واجب التصدق ہے فقہاء کرام کی بعض عبارات میںاقامة غيرهامقامهاسے ذبح ثانیہ مراد ہے"هكذا أفاد ملك العلماء الإمام الكاساني( رحمه الله)."

یہ ددونوں قول ظاہر الروایہ ہیں"والأول أوسع و أوفق لقاعدة أن النذر لاينعقد بدون الإيجاب باللسان والثاني أحوط وأشهر وأوفق لقاعدة الاحتياط في باب العبادات واجب."(3)غنی کے لیے موجب نہیں فقیر کے لیے موجب ہے، لہذا غنی کے لیے بدلنا مطلقاً جائز ہے اور فقیر کے لیے مطلقاًناجائز۔

فروع:(2 )بنیت اضحیہ جانور خریدا پھر وہ گم ہوگیا یا مر گیا تو: غنی پر روایات ثلاثہ کے مطابق دوسرے جانور کی قربانی واجب ہے خواہ وہ پہلے سے کم قیمت ہی کا ہوفقیر پر کچھ نہیں۔"

(کتاب الاضحیہ والعقیقۃ، قربانی کا جانور بدلنا، ج:7، ص:488، ط:ایچ ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100568

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں