ہم تین لوگ ہر سال مل کر قربانی کرتے ہیں ایک فرد جانور لے آتا ہے، اسے سنبھالتا ہے، ذبح کرواتا ہے اور پھر گوشت حصوں کے مطابق ہمیں پہنچا دیتا ہے، میرا سوال یہ ہے کے ہر سال میں اس کو پہلے سے بتا دیتا ہوں کے میرا ایک حصہ ہے، لیکن جب پیسے دینے ہوتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ پیسے جب قربانی مکمل ہو جائے گی تب اندازہ ہوگا کہ ایک حصے کے کتنے پیسے بنے؟ تو پیسے وہ ہمیشہ قربانی ہونے کے بعد لیتا ہے۔
کیا اِس صورت میں میری قربانی قبول ہو جائے گی کہ میں پیسے جانور قربان ہونے کے بعد دے رہا ہوں؟
بصورتِ مسئولہ مذکورہ معاملہ وکالت کا معاملہ ہے، جس میں سائل اپنے ہی ایک ساتھی کو قربانی کے جانور میں ایک حصہ اپنی طرف سے قربان کرنے کا وکیل بناتا ہے، لہذا یہ قربانی جائز ہے۔
نیز مذکورہ وکالت کا معاملہ جانور کی خریداری سے لے کر قربانی تک جاری رہتا ہے، جس میں جانور کے چارے وغیرہ کے اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے جانور کی قربانی سے پہلے حتمی طور پر اخراجات کا تعین ممکن نہیں ہوتا، البتہ قربانی کے بعد تمام اخراجات کا حساب کرنا ممکن ہو جاتا ہے؛ اس لیے اگر سائل کا دوست تمام اخراجات کا حساب لگا کر قربانی کے بعد پیسے وصول کرتا ہے تو یہ جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حاشية ابن عابدين میں ہے:
"من قام عن غيره بواجب بأمره رجع بما دفع وإن لم يشترطه كالأمر بالإنفاق عليه وبقضاء دينه.
(قوله: من قام عن غيره بواجب بأمره إلخ) الظاهر أن المراد بالواجب اللازم شرعا أو عادة ليصح استثناء التعويض عن الهبة ونفس الهبة."
(كتاب الكفالة، ٥/ ٣٣٣، ط: سعيد)
الفتاوى الهندية میں ہے:
"فإن اشترى ثلاثة نفر ثلاث شياه، ثم أشكل عليهم عند الذبح قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل ينبغي أن يوكل كل واحد أصحابه بالذبح حتى لو ذبح شاة نفسه جاز، ولو ذبح شاة غيره بأمره جاز."
(كتاب الأضحية، الباب السابع في التضحية عن الغير، ٥/ ٣٠٤، ط: رشيدية)
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:
"إذا اشترى الوكيل بالشراء بالثمن المعجل أو اشترى بالثمن المؤجل وأعطى الثمن بحلول الأجل من ماله وقبض المبيع فله الرجوع على موكله. يعني ويمكنه أن يأخذ من البائع الثمن الذي أعطاه إياه ولو لم يكن للموكل أمر بذلك صراحة، يعني إذا لم يكن للموكل أمر صريح بإعطاء الوكيل بالشراء الثمن للبائع رجع الوكيل على موكله بعد إعطائه الثمن للبائع من ماله؛ لأن الموكل ما دام يعلم بأن حقوق العقد راجعة للوكيل فقد رضي بأن يدفع ويسلم الوكيل الثمن من ماله."
(الكتاب الحادي عشر، الباب الثالث، الفصل الثاني، المادة: ١٤٩١، ٣/ ٦٠٣، ط: دار الجيل)
فقط والله تعالى أعلم
فتوی نمبر : 144611102585
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن