بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٍقربانی، عقیقہ، نذر، اورصدقہ کے جانوروں کی عمروں کی حد!


سوال

جیسے قربانی کے لیے بکرے کی عمرسال ہوناضروری ہے، ایسے ہی صدقاتِ نافلہ کےبکرےکی عمربھی اتنی ضروری ہے اوربقیہ جانوروں کابھی یہی معاملہ ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ مندرجہ ذیل جانوروں کے لیے شرعاً عمر مقرر ہے:

1:قربانی کا جانور۔ 2: عقیقہ کا جانور۔ 3:دمِ قران۔ 4:دمِ  تمتع۔ 5:دمِ احصار۔  6:دمِ جنایت۔ 7:غیر متعین جانور کی نذر مانی گئی ہو۔

چنانچہ مذکورہ جانوروں میں سے بکری، بکرے، دنبہ اور بھیڑ کے لیے کم از کم ایک سال کی عمر کا ہونا ضروری ہے۔  البتہ اگر دنبہ، بھیڑ پورے سال کا نہ ہو، لیکن اتنا توانا اور صحت مند ہو کہ سال بھر کے دنبہ اور بھیڑوں کے ساتھ کھڑا کیا جائے تو یہ ان سے چھوٹا نظر نہ آئے تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔

جب کہ صدقہ کے جانور میں عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی، بلکہ صدقہ کرنے والا جتنی مالیت کا جانور اللہ کے راستہ میں صدقہ کرنا چاہے کرسکتا ہے اور وہ جتنی مالیت صدقہ کرے گا اتنی مالیت کا اُسے اجر وثواب ملے گا۔اسی طرح اگر متعین جانور کی نذر مانی گئی ہو تو وہ جتنی بھی عمر کا ہے اس کا نذر ماننا درست ہے اور کم یا یازیاہ عمر کے جانور کا نفلی صدقہ بھی جائز ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

وجاز الثنی من الکل والجذع من الضأن ، لقولہٖ علیہ الصلاۃ والسلام: لاتذبحوا إلامسنة إلا أن یعسر علیکم فتذبحوا جذعة من الضأن … والثنی من الضأن والمعز ابن مسنة.

(البحر الرائق، کتاب الأضحیۃ، ج:۷، ص:۱۷۷، ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

ثم یعق عند الحلق عقیقة ... وهي شاة تصلح للأضحیة. 

(الدر المختار مع شرحہ رد المحتار، ج:۶، ص:۳۳۶، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

ولا يجوز في الهدايا إلا ما جاز في الضحايا.

(باب الھدی،ج:2،ص:614،ط:ایچ ایم سعید)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

وإذا أوجب على نفسه الهدىفهو بالخيار بين الأشياء الثلاثة ان شاء أهدى شاة و إن شاء بقرةً وإن شاء إبلًا ... ولايجوز فيهما إلا مايجوز في الأضاحي وهو الثني من الإبل والبقر والجذع من الضأن إذا كان ضخمًا.

(کتاب النذر،ج:6،ص:332،ط:دارالحدیث القاھرۃ)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " «يا نساء المسلمات لا تحقرن جارة لجارتها ولو فرسن شاة» 

«ولو فرسن شاة»  أي: ولو أن تهدي أو تصدق فرسن شاة وهو لحم بين ظلفي الشاة وأريد به المبالغة أي: ولو شيئا يسيرا وأمرا حقيرا لقوله - تعالى - {فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره} [الزلزلة: 7] ولأمره - عز وجل - بالإحسان إلى الجار بقوله {والجار ذي القربى والجار الجنب} [النساء: 36] والمعنى لا تمتنع إحداكن من الهدية أو الصدقة لجارتها احتقارا للموجود عندها وقيل: يجوز أن يكون الخطاب لمن أهدى إليهن، فالمعنى لا تحقرن إحداكن هدية جارتها بل تقبلها وإن كانت قليلة، وفيه حث على الهدية واستجلاب القلوب بالعطية.

(باب فضل الصدقةج:4،ط:343،ط:مکتبه حنیفیه)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144201200160

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں