بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربان گاہ کی طرف لے جاتے ہوئے جانور کی ٹانگ ٹوٹ جائے تو قربانی کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر   قربان گاہ کی طرف لے  جاتے ہوئے قربانی کا جانور کی ٹانگ ٹوٹ جائے تو کیا ایسے جانور کی قربانی درست ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ واجب قربانی کے درست ہونے کے لیے قربانی کے جانور  کا ایسے عیوب سے پاک ہونا ضروری ہے جو شریعت کی نگاہ میں عیب سمجھے گئے ہیں؛ لہٰذا اگر قربانی کے وقت سے پہلے کسی جانور کی ٹانگ ٹوٹ جائے اور جانور چلتے وقت وہ ٹانگ زمین پر بالکل نہ رکھے، بلکہ تین ٹانگوں کے سہارے چلے اور ٹوٹی ہوئی ٹانگ زمین سے اٹھا کر چلے تو یہ قربانی میں بڑا اور واضح عیب ہے، اس کی موجودگی میں قربانی درست نہیں ہوگی۔

ٍ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر قربانی کے جانور کی  ٹانگ   قربان گاہ پہنچنے سے پہلے راستے میں  ٹوٹ جائے، مگر جانور چلتے وقت ٹوٹی ہوئی ٹانگ کو زمین پر رکھ  کر اس کےسہارے کے ساتھ  چل رہا ہو یا قربانی کا جانور  قربان گاہ تک پہنچ جائے اور ذبح کا عمل شروع ہونے کے بعد (مثلاً: گراتے وقت) اس کی ٹانگ ٹوٹ جائے   تو  ان صورتوں میں قربانی درست ہوجائے گی۔

لیکن اگر جانور کی ٹانگ راستے میں ٹوٹ جائے اور جانور اس ٹانگ کو زمین پر بھی  نہیں رکھ رہا ہو  تو اس صورت میں قربانی درست نہیں ہوگی۔

پھر اگر یہ   قربانی واجب ہے تو اس صورت میں  اس کے متبادل دوسرا صحیح جانور لینا ضروری ہے۔ اور اگر قربانی نفلی ہو یا غریب آدمی قربانی کا جانور لایا ہو تو  اس صورت میں  اسی جانور کی قربانی کافی ہے۔

وفي الدر المختار:

"(قوله: والعرجاء) أي التي لايمكنها المشي برجلها العرجاء إنما تمشي بثلاث قوائم، حتى لو كانت تضع الرابعة على الأرض وتستعين بها جاز عناية (قوله: إلى المنسك) بكسر السين والقياس الفتح."

(رد المحتار6/ 323  ط:سعيد)

وفي الفتاوى الهندية :

"ولو قدم أضحية ليذبحها فاضطربت في المكان الذي يذبحها فيه فانكسرت رجلها، ثم ذبحها على مكانها أجزأه."

(5/ 299ط:دار الفكر)

وفي الدر المختار:

"(ولو) (اشتراها سليمةً ثم تعيبت بعيب مانع) كما مر (فعليه إقامة غيرها مقامها إن) كان (غنيا، وإن) كان (فقيرا أجزأه ذلك) وكذا لو كانت معيبة وقت الشراء لعدم وجوبها عليه بخلاف الغني، ولا يضر تعيبها من اضطرابها عند الذبح."

(رد المحتار6/ 325ط:سعيد)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200814

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں