بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کا ارادہ رکھنے والا شخص بھولے سے ناخن کاٹ لے تو کیا حکم ہے؟


سوال

 اگر کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو شریعت کا حکم یہ ہے کہ ناخن اور بال نہ کاٹے لیکن اگر کوئی شخص بھول کر یہ عمل کرلے یعنی بھول کر ناخن یا بال کاٹ لے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

 جو آدمی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو (خواہ واجب قربانی کا ارادہ ہو یا نفلی کا)  اس کے لیے مستحب ہے کہ   ذی الحجہ کا چاند طلوع ہونے کے بعد سے لے کر قربانی کا جانور ذبح کرنے تک جسم کے کسی عضو سے بال اور ناخن صاف نہ کرے، تاہم یہ ایک مستحب  عمل ہے لہذ اگر کوئی شخص بال یا ناخن وغیرہ کاٹ لے تو اس سے اس کی قربانی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، البتہ ثواب سے محروم ہوجائے گا۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن أم سلمة - رضي الله عنها - قالت: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «إذا دخل العشر، وأراد بعضكم أن يضحي فلا يمس من شعره وبشره شيئا، وفي رواية: فلا يأخذن شعرا، ولا يقلمن ظفرا، وفي رواية: من رأى هلال ذي الحجة وأراد أن يضحي، فلا يأخذ من شعره ولا من ظفاره» . رواه مسلم.

(وأراد) أي: قصد، (بعضكم أن يضحي) : سواء وجب عليه الأضحية، أو أراد التضحية على الجهة التطوعية، فلا دلالة فيه على الفرضية، ولا على السنية، وفي شرح السنة: في الحديث دلالة على أن الأضحية غير واجبة ؛ لأنه فوض إلى إرادته حيث قال: وأراد، ولو كانت واجبة لم يفوض.

قال التوربشتي: ذهب بعضهم إلى أن النهي عنهما للتشبه بحجاج بيت الله الحرام المحرمين، والأولى أن يقال: المضحي يرى نفسه مستوجبة للعقاب وهو القتل، ولم يؤذن فيه ففداها بالأضحية، وصار كل جزء منها فداء كل جزء منه، فلذلك نهي عن مس الشعر والبشر ; لئلا يفقد من ذلك قسط ما عند تنزل الرحمة، وفيضان النور الإلهي، ليتم له الفضائل، ويتنزه عن النقائص.

وظاهر كلام شراح الحديث من الحنفية ‌أنه ‌يستحب ‌عند ‌أبي ‌حنيفة."

(باب الاضحیہ، ج:3، ص:1081 ، ط:دار الفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100328

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں