بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کا انتظام کرنے پر اجرت لینا


سوال

ایک علاقے میں قربانی کے جانور کی قیمت بہت زیادہ ہے اور دوسرے علاقے میں جانور سستے میں ملتے ہیں ۔ اس لیے ایک آدمی نے دوسرے سےکہا کہ میں جس جگہ رہتا ہوں وہاں جانور سستے ہیں، لہذا میں آپ لوگوں کی قربانی اپنی ذمہ داری کے ساتھ کراؤں گا اور گوشت فقراء میں تقسیم کردوں گا لیکن اس صورت میں جانورخریدنے، بازار سے لانےاورکچھ دن یا کچھ وقت اس کی حفاظت کرنے اور اس کو ذبح کرکے تقسیم کرانے اور اس قسم کی دیگر محنت کے بدلے کچھ رقم قربانی کرنے والے سے لوں گا ، تو کیا ازروئے  شرع اس کا یہ پیسہ لینا حلال ہوگا؟

جواب

صورت مسئولہ میں اجتماعی قربانی کا انتظام کرنے والے ادارہ / فرد  کی جانب سے اگر  ابتداءً حصہ لینے والے افراد پر  یہ بات واضح کردی جائے کہ  ان کی جانب سے قربانی کی ذمہ داری ادا کرنے پر  فرد یا ادارہ  ایک متعین اجرت لے گا، تو  اس صورت میں  اجرت لینا جائز ہوگا، البتہ أجرت کا شروع سے ہی معین ہونا ضروری ہوگا، غير متعین یا مبہم  اجرت ( جیساکہ  یوں کہنا کہ: قربانی کے بعد جو رقم بچے گی فرد یا ادارہ کی أجرت ہوگی) لینا جائز نہ ہوگا۔

 الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار میں ہے:

"وشرطها: كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة.

وحكمها وقوع الملك في البدلين ساعة فساعة."

( كتاب الاجارة، ص: ٥٦٩، ط: دار الكتب العلمية)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر میں ہے:

"وشرطها ما تقدم من كون الأجرة والمنفعة معلومتين، وحكما وقوع الملك في البدلين ساعة فساعة كما مر.

وفي المنح: ولا تنعقد الإجارة الطويلة بالتعاطي؛ لأن الأجرة غير معلومة قد يجعلون لكل سنة دانقا وقد يجعلون فلوسا وفي غير الطويلة الإجارة تنعقد بالتعاطي كذا في الخلاصة قلت: مفاد كلامه أن الأجرة إذا كانت معلومة في الإجارة الطويلة تنعقد بالتعاطي انتهى."

( كتاب الاجارة، ٢ / ٣٦٩، ط: دار إحياء التراث العربي)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں