بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کے حوالہ سے صاحب ہدایہ کی عبارت : والتضحية فيها افضل من التصدق بثمنها کی وضاحت


سوال

 فقہ کی مشہور ترین کتاب الهداية ج ۴ میں ایک عبارت ہے (  والتضحية فيها افضل من التصدق بثمنها)يعنى قربانى كی دنوں میں قربانی کرنا تصدق ثمن سے افضل ہے اسی طرح حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمن صاحب رحمہ اللہ تعالی ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

الجواب : مسئلہ یہ ہے کہ ایام اضحیہ میں غنی پر قربانی واجب ہے ، اس وقت تصدق بالقیمت درست نہیں ہے کیونکہ قربت اراقت دم میں ہے ۔ کـمـا فی الشـامی، البتہ اگر ایام اضحیہ گزر گئے تو تصدق بالقیمت لازم ہے ، کذا  فی الشامی۔

پس مطلب عبارت ہدایہ : یہ لینا چاہیے کہ قربانی؛  ایام نحر میں افضل ہے، تصدق بالقیمت سے، بعد ایام نحر کے ۔ اس صورت میں بین السطور کا مطلب صحیح ہو جاوے گا کیونکہ بعد مضی ایام نحر تصدق بالقیمت سے وجوب ساقط ہو جا تا ہے ، اور اس میں کچھ اور بھی تفصیل ہوسکتی ہے جس کی اس وقت گنجائش نہیں ہے ۔ قـال في ردالمحتار ( ۲۰۳/۵ ) :

إذا وجبت بإيجابه صريحا أو بالشراء لها ، فإن تصدق بعينها في أيامها فعليه مثلها مكانها لأن الواجب عـلـيـه الإراقة ، وإنـمـا يـنـتـقل إلى الصدقة إذا وقع اليأس عن التضحية بمضي أيامها و إن لم یشتر مثلها حتى مضت أيامها تصدق بقيمتها

اب سوال یہ ہے کہ کیا ایام نحر میں قربانی کرنا افضل ہے بعد ایام نحر کے تصدق ثمن سے اگر چہ فی نفسہ قربانی تو واجب ہے مگر ایام نحر میں قربانی اور بعد ایام نحر میں تصدق بالثمن ان دونوں میں سے قربانی کرنا افضل ہے یا واجب ؟

اس کی وضاحت درکار ہے ۔

جواب

واضح  رہے کہ حنفیہ کے نزدیک مفتی بہ قول کے مطابق مالدار شخص پر  قربانی  کرنا واجب ہے، جس کی ادائیگی  کا وقتِ اداء  اَيام نحر ہے، اور ان ایام میں قربانی نہ کرنے کی صورت میں قربانی کی قیمت کا صدقہ ذمہ میں واجب ہوتا ہے، جو کہ درحقیقت  وقتِ اداء  میں واجب  قربانی نہ کرنے کی وجہ سے ، اس کی قضا  کی صورت ہے،  ادا  اور قضا  میں سے افضل ادا ہوتی ہے، اگرچہ دونوں سے واجب ذمہ سے ساقط ہوجاتا ہے، جیسے مثلًا ظہر  زوالِ شمس کے بعد لازم ہوجاتی ہے، جس کا وقتِ  اداء   زوال کے بعد سے لے کر عصر کا وقت داخل ہونے تک ہے، اس کے بعد قضا شمار ہوتی ہے،  اگرچہ دونوں صورتوں میں ظہر  کی  ادائیگی  ذمے  سے  ساقط  ہو جاتی  ہے۔

پس یہ کہنا کہ ظہر وقتِ  اداء میں پڑھنا  ظہر قضا کرکے پڑھنے سے افضل ہے، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ  نفس ظہر کی فرضیت اور افضلیت میں تردد پیدا ہوجائے، بلکہ اس افضلیت کا تعلق نماز کی  نفسِ فرضیت یا عدمِ فرضیت سے نہیں ہے، بلکہ فرض کی ادائیگی کے وقت سے ہے، نیز اس کا یہ مطلب  بھی نہیں ہے کہ ظہر کی نماز قضا کرنا جائز ہوجائے، بلکہ فرض کو شرعی عذر کے بغیر قضا کرنا کبیرہ گنا ہے، بالکل اسی طرح سے ايامِ نحر میں   مالدار پر  اور اس غریب شخص پر قربانی واجب ہوتی ہے  جس نے قربانی کی نیت سے جانور خرید لیا ہو، اب اس واجب کی ادائیگی کی  دو صورتیں ہیں، ایک وقتِ اداء میں قربانی کرکے واجب ادا  کرنا، دوسری صورت  واجب کی ادائیگی کا وقت نکلنے کے بعد اس کی قضا  ادائیگی کرنا،  پس صاحبِ  ہدایہ کی تعبیر کہ  ايام نحر میں قربانی کرنا،  قربانی کی قیمت غير  ايام نحر میں صدقہ کرنے سے افضل ہے،  کا تعلق قربانی کے نفسِ وجوب یا عدمِ وجوب سے نہیں ہے، بلکہ اس  افضلیت  کا تعلق قربانی  کی ادائیگی کے وقت سے ہے۔ نیز جس طرح فرض نماز کو بغیر عذر کے قضا کرنا گناہ ہے اسی طرح جس پر قربانی واجب ہو، اس کا بغیر عذر کے ایامِ نحر میں  قربانی  نہ کرنا  گناہ ہے۔

النهاية في شرح الهداية للسغناقي میں ہے:

" قوله: (والتضحية فيها أفضل من التصدق)، لو كان في حق الغني لا يستقيم قوله: أفضل، إذ لا يجوز عنه التصدق مقام التضحية في أيام النحر أصلا؛ لوجوب التضحية عليه عينا، فبعد ذلك كيف يصح في حقه استعمال أفعل التفضيل، ولو كان هذا في حق الفقير لا يستقيم التعليل بقوله؛ لأنها تقع واجبة أو سنة لما أن التضحية عن الفقير لا تقع واجبة ولا سنة بل تقع تطوعا محضا.

قلت: إرادة مطلق وقوع التضحية أفضل ممن ضحى، سواء كان المضحى فقيرا أو غنيا؛ لأن التضحية في حقهما أفضل من التصدق، أما في حق الفقير فظاهر على ما نذكر، وأما في حق الغني فلما كانت  الأضحية عليه واجبة كانت جهة الأفضلية فيها ثابتة أيضا، وهذا كما لو قلت: صوم رمضان في وقته أفضل من قضائه، لاشك في استقامة هذا اللفظ، مع أن الصوم على الصحيح المقيم فرض عينا، وعلى المريض والمسافر ليس بفرض عينا أداؤه، بل الأفضل لهما الصوم في وقته إذا لم يتضررا به زيادة ضرر يخاف منها، لكن لما كانت جهة الأفضلية شاملة للفريقين من تركه استقام ذلك، فكذا هنا.

ثم لما كانت الأضحية بطريق الأصالة على الغنى؛ علل المسألة بتعليل يستقيم في حقه، إعمالا للأصل، ومثل هذا الذي ذكره من الرواية مذكور في "المبسوط" أيضا، فقال: والأضحية أحب إلي من التصدق بمثل قيمتها، والمراد في أيام النحر؛ لأن الواجب التقرب بإراقة الدم  و لايحصل ذلك بالتصدق، ثم قال: ففي حق الموسر الذي يلزمه ذلك لا إشكال أنه لا يجوز له التصدق بقيمته؛ لأنه لا قيمة لإراقة الدم، وإقامة المتقوم مقام ما ليس بمتقوم لا يجوز، وإراقة الدم خالص حق الله تعالى، ولا وجه للتعليل فيما هو خالص حق الله تعالى.

وأما في حق الفقير فالتضحية أفضل؛ لما فيه من الجمع بين التقرب بإراقة الدم والتصدق؛ ولأنه يتمكن من التقرب بالتصدق في سائر الأوقات، ولا يتمكن من التقرب بإراقة الدم إلا في هذه الأيام؛ فكان أفضل.

(فنزلت منزلة الطواف والصلاة في حق الآفاقي)، أي: الطواف تطوعا أفضل من صلاة التطوع في حق الآفاقي.

وأما في حق أهل مكة فالصلاة أفضل لما ذكره من المعنى، وهو أن الطواف يفوت في حق الآفاقي فكان هو أفضل من الصلاة التي لا تفوت وهي صلاة التطوع."

( كتاب الأضحية، ٢٣ / ٢٥ - ٢٧، ط: مركز الدراسات الإسلامية بكلية الشريعة والدراسات الإسلامية بجامعة أم القرى)

حاشية الشرنبلالي میں ہے:

" (قوله: والتضحية فيها أفضل من التصدق بثمن الأضحية. . . إلخ) كذا في الهداية.

وقال في العناية هذا الدليل يشمل الغني والفقير اهـ.

(قلت) فيه إيهام جواز التصدق بالقيمة عن واجب الأضحية للغني في أيام النحر ولا يجزيه التصدق في أيام النحر بالقيمة لما قال في المبسوط إنه لا إشكال أن الموسر لا يجزيه التصدق بالقيمة في أيام النحر؛ لأنه لا قيمة لإراقة الدم وإقامة المتقوم مقام ما ليس بمتقوم لا يجوز وإراقة الدم خالص حق الله تعالى، وأما في حق الفقير التضحية أفضل لما فيه من الجمع بين التقرب بإراقة الدم والتصدق اهـ بمعناه (قوله: والتصدق) أي بثمنها تطوع محض فكانت هي أفضل كما في التبيين."

(حاشية الشرنبلالي بهامش درر الحكام شرح غرر الأحكام، كتاب الأضحية، ١ / ٢٦٨، ط: دارالكتب العلمية - بيروت، لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100666

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں