بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآنی آیات والی انگھوٹی کو بغیر وضو کے پہننا


سوال

 اگر انگو ٹھی کے کسی پتھر پر آیات قرآنی لکھی ہو تو کیا اُسکو پہنتے وقت با وضو رہنا ضروری ہے؟ مثلا اگر سنگ حدید پر آیت الکرسی نقش ہے اور بعض اوقات وضو قائم نہیں رہتا، تو کیا ایسی انگو ٹھی کو پہن کے رکھا جا سکتا ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر سائل کی مراد چاندی  کی انگوٹھی کے علاوہ کسی اور دھات کی بنی ہوئی  انگوٹھی   پر لگے ہوئے پتھر کے نگینے کے بارے میں سوال ہے تو چاندی کے علاوہ  کسی اور دھات کی بنی ہوئی انگوٹھی کا پہننامرد کے لیے جائز نہیں ہے ۔اور اگر چاندی کی انگوٹھی پرلگے ہوئے   پتھر  (مثلا سنگ حدید )والے نگینے پر آیات قرآنی (مثلا آیت الکرسی )وغیرہ  لکھی ہو ئی ہے  تو اس کو بغیر وضو کے پہن سکتے ہیں ،وضوکا قائم رہنا ضروری نہیں ہے ۔البتہ ادبا  بغیر وضو کے اس کو نہ پہنا جائے اور اگر پہن لے تو وضو نہ ہونے کی صورت میں قرآنی آیات والی جگہ  کو ہاتھ نہ لگائے ۔ نیز مذکورہ انگوٹھی پہن کر بیت الخلا میں جانا بھی مکروہ ہوگا، لہٰذا بیت الخلا میں جانے سے پہلے اتارلے یا جیب میں رکھ لے۔

ملحوظ رہے کہ عورت کے لیے بھی سونے اور چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"(ولا يتختم) إلا بالفضة لحصول الاستغناء بها فيحرم (بغيرها كحجر....وذهب وحديد وصفر)".

"(قوله فيحرم بغيرها إلخ) لما روى الطحاوي بإسناده إلى عمران بن حصين وأبي هريرة قال: «نهى رسول الله - صلى الله تعالى عليه وسلم - عن خاتم الذهب» ، وروى صاحب السنن بإسناده إلى عبد الله بن بريدة عن أبيه: «أن رجلا جاء إلى النبي  صلى الله تعالى عليه وسلم - وعليه خاتم من شبه فقال له: مالي أجد منك ريح الأصنام فطرحه ثم جاء وعليه خاتم من حديد فقال: مالي أجد عليك حلية أهل النار فطرحه فقال: يا رسول الله من أي شيء أتخذه؟ قال: اتخذه من ورق ولا تتمه مثقالا»".

(کتاب الحضر والاباحة ، فصل فی اللبس 6 /359 ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"(قوله: والتفسير كمصحف) ظاهرة حرمة المس كما هو مقتضى التشبيه وفيه نظر، إذ لا نص فيه بخلاف المصحف، فالمناسب التعبير بالكراهة كما عبر غيره.(قوله: لا الكتب الشرعية) قال في الخلاصة: ويكره مس المحدث المصحف كما يكره للجنب، وكذا كتب الأحاديث والفقه عندهما. والأصح أنه لا يكره عنده. اهـ. قال في شرح المنية: وجه قوله إنه لا يسمى ماسا للقرآن؛ لأن ما فيها منه بمنزلة التابع اهـ ومشى في الفتح على الكراهة فقال: قالوا: يكره مس كتب التفسير والفقه والسنن؛ لأنها لا تخلو عن آيات القرآن، وهذا التعليل يمنع من شروح النحو. اهـ.(قوله: لكن في الأشباه إلخ) استدراك على قوله والتفسير كمصحف، فإن ما في الأشباه صريح في جواز مس التفسير، فهو كسائر الكتب الشرعية، بل ظاهره أنه قول أصحابنا جميعا، وقد صرح بجوازه أيضا في شرح درر البحار" .

"وفي السراج عن الإيضاح أن كتب التفسير لا يجوز مس موضع القرآن منها، وله أن يمس غيره وكذا كتب الفقه إذا كان فيها شيء من القرآن، بخلاف المصحف فإن الكل فيه تبع للقرآن". اهـ

(كتاب الطهارت ، سنن الغسل 1 /176 ط: سعيد)

وفیہ ایضا:

"(قوله ولا يزيده على مثقال) وقيل لا يبلغ به المثقال ذخيرة.أقول: ويؤيده نص الحديث السابق من قوله - عليه الصلاة والسلام - «ولا تتممه مثقالا»".

(کتاب الحضر والاباحة ، فصل فی اللبس 6 /361 ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408101247

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں