بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن کریم کی آیات کی تعداد میں اختلاف کی وجہ


سوال

قرآن کریم کے بارے میں مشہور ہے کہ قرآن کی آیات کی تعداد 6666 ہے حالانکہ بعض جگہ پر 6236 آیتیں لکھی ہوئی ہیں تو یہ اختلاف کس بنیاد پر ہے اور موجودہ نسخے کے مطابق قرآن کی آیات کی تعداد احناف کے نزدیک کتنی ہے اور رکوع کی تعداد کتنی ہے؟

جواب

       قرآن کریم کی آيات چھ ہزار هونے پر سب کا اتفاق ہے۔ اس سے زائد کے بارے میں مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، کوفہ اور بصرہ کے قراء کا اختلاف ہے۔ لیکن قرآن کریم کی آیات کی تعداد کے بارے میں یہ اختلاف آیات کی انتہاء وابتداء کے حساب سے ہے یعنی کہاں پر وقف کیا جائے اور کہاں وقف نہ کیا جائے، بلکہ ملاکر پڑھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تلاوت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ کسی جگہ پر رک کر سانس تھوڑدیتے، اور بعض دفعہ اس پر وقف نہیں کرتے بلکہ ملا کر پڑھتے۔اس لئے بعد میں یہ اختلاف اس طرح نقل ہوگیا۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وصل کرتے(ملا کر پڑھتے)، اور  بعض دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس جگہ پر فصل(جدا،جدا) کرکے پڑھتے۔بعد کے ادوار میں جب آیات کو اس اعتبار سے گنا گیاـ تو اس سے آیات کی تعداد میں اختلاف واقع ہوا۔اور بعد میں یہ اختلاف مکی، مدنی، کوفی اور بصری قراء کی اختلاف کی شکل میں ظاھر ہوا۔ لیکن یہ اختلاف معاذ اللہ اس بنیاد پر ہر گز نہیں کہ قرآن کریم کے کسی حصے کے متعلق اختلاف ہے کہ وہ قرآن کریم کا حصہ ہے یا نہیں۔ یہ  اقوالصرف بعض مقامات کے متعلق وقف وعدم وقف کا اختلاف ہے۔

مناہل العرفان میں ہے:

"قال صاحب التبيان ما نصه: وأما عدد آي القرآن فقد اتفق العادون على أنه ستة آلاف ومائتا آية وكسر إلا أن هذا الكسر يختلف مبلغه باختلاف أعدادهم:

ففي عدد المدني الأول سبع عشرة وبه قال نافع.

وفي عدد المدني الأخير أربع عشرة عند شيبة وعشر عند أبي جعفر.

وفي عدد المكي عشرون.

وفي عدد الكوفي ست وثلاثون. وهو مروي عن حمزة الزيات.

وفي عدد البصري خمس وهو مروي عن عاصم الجحدري. وفي رواية عنه أربع وبه قال أيوب بن المتوكل البصري وفي رواية عن البصريين أنهم قالوا: تسع عشرة وروي ذلك عن قتادة.

وفي عدد الشامي ست وعشرون وهو مروي عن يحيى بن الحارث الذماري اهـ."

(المبحث التاسع: في ترتيب آيات القرآن وسوره، عددآيات القرآن،1/ 343،ط. مطبعة عيسى البابي الحلبي)

 تاریخ القرآن ميں مولانا عبد الصمدصارم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’آیات تعداد میں اختلاف ہے۔ اس کا باعث یہ ہے کہ حضور علیہ السلام بعض دفعہ آیتوں پر ٹھهرا کرتے تھے اور بعض دفعہ وصل دفعہ وصل بھی فرمایا کرتے تھے۔ لہذا بعض نے فصل کا اعتبار کیا اور بعض نے وصل کا۔‘‘

(الباب الثالث فی الشتات،شمار ،ص:101، ط۔ میرمحمد کتب خانہ کراچی،1359ھ)

مزید یہ کہ آیات آیة کی جمع ہے، اور آیت کا معنی ہے نشان علامت، قرآن کریم میں اس کا مطلب ہے وہ مقام جس پر ٹھہرنا اچھا ہو۔جیسا کہ المصباح المنیر(لابی العباس احمد بن محمد بن علي الفيومي،ت:۷۷۷ھ) میں ہے:

"والآية: العلامة، والجمع: آي، وآيات، والآية من القرآن: ما يحسن السكوت عليه."

(الألف مع الواو، 1/ 32،ط: المكتبة العلمية ، بيروت)

ہمارے ہاں مروجہ قرآن کریم كے نسخہ کے مطابق  6236 آیات ، اور 540 رکوعات ہیں، یہ حساب ہم نے تاج کمپنی  لمیٹڈ پاکستان  کے مطبوعہ قرآن کریم کو سامنے رکھ کر لگا یا ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وحكي أن المشايخ رحمهم الله تعالى جعلوا القرآن على خمسمائة وأربعين ركوعا وأعلموا ذلك في المصاحف حتى يحصل الختم في ليلة السابع والعشرين."

(كتاب الصلاة ،الباب التاسع في النوافل، فصل في التراويح، 1/ 118،ط: رشیدیہ)

آيات سے كي تعداد سے متعلق   ایک چارٹ:

نمبر

سورة

آیات

1

الفاتحہ

7

2

البقرة

286

3

آل عمران

200

4

النساء

176

5

المائدہ

120

6

الانعام

165

7

الاعراف

206

8

الانفال

75

9

التوبہ

129

10

یونس

109

11

ہود

123

12

یوسف

111

13

الرعد

43

14

ابراھیم

52

15

الحجر

99

16

النحل

128

17

بنی اسرائیل

111

18

الکہف

110

19

مریم

98

20

طہ

135

21

الانبیاء

112

22

الحج

78

23

المومنون

118

24

النور

64

25

الفرقان

77

26

الشعراء

227

27

النمل

93

28

القصص

88

29

العنکبوت

69

30

الروم

60

31

لقمان

34

32

السجدہ

30

33

الاحزاب

73

34

سبا

54

35

فاطر

45

36

یسین

83

37

الصافات

182

38

ص

88

39

الزمر

75

40

المومن

85

41

حم سجدہ

54

42

الشوری

53

43

الزخرف

89

44

الدخان

59

45

الجاثیہ

37

46

الاحقاف

35

47

محمد

38

48

الفتح

29

49

الحجرات

18

50

ق

45

51

الذاریات

60

52

الطور

49

53

النجم

62

54

القمر

55

55

الرحمن

78

56

الواقعہ

96

57

الحدید

22

58

المجادلہ

22

59

الحشر

24

60

الممتحنہ

13

61

الصف

14

62

الجمعہ

11

63

المنافقون

11

64

التغابن

18

65

الطلاق

12

66

التحریم

12

67

الملک

30

68

القلم

52

69

الحاقہ

52

70

المعارج

44

71

نوح

28

72

الجن

28

73

المزمل

20

74

المدثر

56

75

القیامہ

40

76

الدھر

31

77

المرسلات

50

78

النباء

40

79

النازعات

46

80

عبس

42

81

التکویر

29

82

الانفطار

19

83

المطففین

36

84

الانشقاق

25

85

البروج

22

86

الطارق

17

87

الاعلیٰ

19

88

الغاشیہ

26

89

الفجر

30

90

البلد

20

91

الشمس

15

92

اللیل

21

93

الاضحی

11

94

الم نشرح

8

95

التین

8

96

العلق

19

97

القدر

5

98

البینہ

8

99

الزلزال

8

100

العادیات

11

101

القارعة

11

102

التکاثر

8

103

العصر

3

104

الھمزة

9

105

الفیل

5

106

قریش

4

107

الماعون

7

108

الکوژر

3

109

الکافرون

6

110

النصر

3

111

تبت

5

112

الاخلاص

4

113

الفلق

5

114

الناس

6

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201201301

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں